لاہور : نام ور شاعر ، محقق ، کالم ناگار اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار کی تشویش ناک حالت کی خبروں سے ادبی حلقوں خاص طور پر ان کے مداحوں اور شاگردوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور دنیا بھر میں ان کی سلامتی کے لیے دعاؤں کا سلسلہ جاری ہے ۔ وہ گزشتہ چند روز سے لاہور کے ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔
ڈاکڑ اختر شمار کے صاحبزادے کے مطابق اختر شمار ایک ڈیڑھ برس سے جگر کے عارضے کا شکار ہیں ان کا علاج جاری تھا کہ ان کے پھیپھڑے بھی متاثر ہو گئے اور سانس لینے میں دشواری کے بعد انتہائی نگہداشت وارڈ میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے درخواست کی کہ احباب ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کریں۔
اختر شمار نے ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ ہائی سکول پاک عرب ملتان سے میٹرک کے بعد انہوںملتا ن سے ہی انٹر میڈیٹ کیا اور پھر لاہور منتقل ہو گئے ۔لاہور میں گریجویشن ،ماسٹرز کے بعد وہ محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے حیدردہلوی کے فن اورشخصیت پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی تحریر کیا۔ ڈاکٹراختر شمار ”اختر شماریاں “ کے نام سے نوائے وقت سمیت مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ انہوں نے ریڈیو اور پی ٹی وی کے لیے بھی بہت سے پروگراموں کی میزبانی کی ۔
انہوں نے ایف سی کالج لاہور میں صدرشعبہ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ اسی دوران وہ مصر بھی گئے اور2008سے 2013تک جامعہ عین الشمس اور 2010 سے2013ءتک جامعہ الازہر میں خدمات انجام دیں۔ اختر شمارکا نام اردو کے ابتدائی ہائیکو نگاروں میں شامل ہے۔ ان کے ہائیکو کامجموعہ1980 میں شائع ہوا۔ ان کاپہلا شعری مجموعہ ”کسی کی آنکھ ہوئے ہم“ کے نام سے منظرعام پرآیا۔ دیگرکتابوں میں ”دھیان “ ،”جیون تیرے نام“ ،”یہ آغاز محبت ہے“ سمیت اردو،پنجابی کی بہت سی کتاب شامل ہیں۔ اخترشمار کی کئی غزلیں اوراشعار زبان زدعام ہیں۔ خاص طورپرنصرت فتح علی خان کی گائی ہوئی ان کی ایک غزل کوبہت شہرت ملی۔
اس کے نزدیک غم ترک وفاکچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسا ہوا کچھ بھی نہیں
فیس بک کمینٹ