میں بچپن سے اشتراکی نظام سیاست کی جانب مائل رہا ہوں۔ پچھلے دس برس کے دوران سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر میرا تعارف بہت سے مارکسسٹوں سے ہوا۔ میں نے بحیثیت ایک ادنیٰ طالب علم کے ان دوستوں سے بہت کچھ سیکھا۔ میں جب بھی ان سے ملا، ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور خود کو مطمئن کیے بغیر ان کے پاس سے نہ اٹھا۔ ان کمیونسٹوں میں پارس جان، آدم پال، راشد خالد، فرحان گوہر اور علی اوسط کے علاوہ بہت سے دوسرے کامریڈ شامل ہیں۔ جہاں تک میں مارکسزم کو سمجھا ہوں، یہ محنت کشوں کے ہاتھوں میں ابھرنے والا اشتراکی نظریہ ہے۔ یہ سائنسی بنیادوں پر سرمایہ دارانہ نظام کی نفی کرتا ہے اور اس کا قابل عمل نعم البدل فراہم کرتا ہے جو دورحاضر میں انسانیت کی فلاح کا واحد راستہ ہے۔
ایک سوال جو میں نے بار بار اپنے اسکالر دوستوں سے کیا، وہ پاکستان پیپلز پارٹی، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سیاست کے بارے میں تھا۔پی پی پی پاکستان کی پہلی قومی سطح کی جماعت تھی جس نے مزدوروں اور محنت کشوں کے مفادات کی سیاست کی۔ بدقسمتی کہ یہ جماعت اپنے آغاز میں ہی ملائیت کے زیراثر آ گئی۔ اس کے نتیجے میں شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بہت سے مزدور دشمن اقدامات بھی کیے۔ ان کا اعتراف انہوں نے دوران حراست اپنی کتاب، "اگر مجھے قتل کر دیا گیا” میں کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد بھرپور سیاسی مزاحمت کی۔ اس دوران انہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں لیکن وہ ضیا کی آمریت کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹی رہیں۔
محترمہ بینظیر کی سیاست ان کے وزیراعظم بننے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کی وجہ سے تنازعات کا شکار رہی۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ان پر اعتماد نہیں کیا اور ان کی دونوں حکومتیں محلاتی سازشوں کا شکار ہو کر ختم ہو گئیں۔ یہ نوے کی دہائی تھی اور مارکسی نقطہ نظر سے جمود کا دور تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ساری دنیا میں سرمایہ دار جشن کناں تھے۔ بہرحال مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد محترمہ نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے فوجی آمر کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کیے رکھا۔
18 اکتوبر 2007 کو جب وہ طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو چالیس لاکھ کے لگ بھگ محنت کشوں، مزدوروں اور کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا. اس ریلی کے دوران کارساز کراچی کے مقام پر خوفناک خودکش دھماکہ کیا گیا جس میں سینکڑوں کارکن اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ محترمہ اس حملے میں محفوظ رہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بینظیر دہشت گردی اور موت سے ڈر کر گھر بیٹھی رہتیں لیکن تاریخ نے دیکھا کہ اس حملے نے ان کے حوصلے کو مزید بلند کر دیا۔ انہوں نے کراچی تا خیبر زبردست انتخابی مہم چلائی اور آخرکار لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک جلسے کے بعد جام شہادت نوش کر لیا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی جماعت ان کے مفادپرست رشتہ داروں کے ہاتھوں میں آ گئی جنہوں نے ایک عوامی جماعت کو ڈرائنگ روم کی جماعت میں تبدیل کر دیا۔
اتنی لمبی تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ پاکستان کا نظریاتی کمیونسٹ مندرجہ بالا حالات و واقعات کو یکسر نظر انداز کر کے ان شخصیات کا ذکر کرنے والوں کو بڑی آسانی سے شخصیت پرست قرار دے دیتا ہے۔ پچھلے سال میں نے معروف عالمی کمیونسٹ رہنما جناب ایلن ووڈ کا لاہور میں خطاب سنا۔ اس خطاب میں انہوں نے کسی خطے میں رائج معاشرتی، مذہبی اور سیاسی حالات کو سمجھنے اور ان کی حقیقت کو تسلیم کرنے کا پیغام دیا۔ لیکن افسوس کہ کچھ افراد محض اپنی ناپسندیدہ شخصیات اور عقائد سے نفرت کی بنا پر ان کو یکسر مسترد کر کے فرقہ واریت پر اتر آتے ہیں۔ ان کے تنگ اذہان ایک ملا کے دماغ کی طرح زمینی حقیقت کو بالکل رد کر دیتے ہیں۔ یہ مارکسی ملا کارل مارکس، لینن، ٹراٹسکی اور اسٹالن کے بت بنا کر ان کی پوجا کرتے ہیں لیکن مقامی بہادر افراد کی تعریف کو شخصیت پرستی قرار دے کے ان کے چاہنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ان کے اس اسٹانس کا حل میرے پاس ان سے اظہار لاتعلقی کے سوا کچھ نہیں بچتا کیونکہ یہ کبھی قائل نہ ہونے والے مارکسی ملا ہیں۔
فیس بک کمینٹ