میر صاحب نے سچ کہا ….
عجب ہوتے ہیں شاعر بھی میں اس فرقے کا عاشق ہوں
کہ بے دھڑکے بھری مجلس میں یہ اَسرار کہتے ہیں
اس عقیدے کا ایک فرد میں بھی ہوں۔ میرا کامل یقین ہے کہ اگر کوئی شاعر سچ کہنا چاہے ، اُس کی طاقتِ اظہار سے بڑھ کر دنیا کا بڑے سے بڑا سچ بھی ایسی تاثیر کمال کو پہنچ نہ پائے۔ خیال کی نزاکتوں ، کنایوں کے حسن اور لفظ و معنی کے ان معجزات ہنر کے آگے ، کسی خطیب کی شعلہ بیانی ، متکلم کی شائستہ گفتاری ، نگارش قلم کے حرف آشنا کسی، نثر نویس کی سحر طرازی ، اظہار کے یہ سارے پیرائے ہیچ معلوم ہوتے ہیں۔
اجراءکے 23 ویں شمارے میں ، فلک آثار دیکھ رہا تھا ، طالب جوہری کی نظم ”پچھتاوا“ پر نظر رُک گئی۔ پہلے تو میں نے اس نظم کی ہیئت پر غور کیا ، اپنی ساخت کے اعتبار سے یہ ایک بالکل نیا سانچہ ہے۔ اردو نظم نگاری کے شاہکار تجربوں، آرزو کے ”سریلے نغموں“ عظمت اللہ کے ”سریلے بول“ سے لے کر ترقی پسندوں کے سلسلہ امامت کی آخری ولایت عظیم قریشی تک کیسے کیسے باکمال لوگ ہمارے سامنے ہیں۔ ”میں کیسے مسکراتی ہوں(ماہ طلعت زاہدی)“ اور ”ماوریٰ سے استانزے“ (جیلانی کامران) تک نظم جدیدکا یہ سفر ، طرح طرح کی ترکیبوں سے عبارت ملتا ہے۔ اس سارے تناظر میں طالب جوہری کی یہ نظم ، اردو شاعری میں نئے امکانات کا در کھولتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے بطون معانی سے اردو شاعری کا ایک نیا جنم سر اُٹھاتا نظر آرہا ہے۔
اس نظم کے پہلے چار اجزائے خیال برابر ہم وزن (بحر متقارب) مصرعوں میں ہیں۔ پھر انہی اوزان کے زحافاتی تصرف کے ذریعے معمولی اُلٹ پھیر سے اگلے ربیعے (چار مصرعوں کی اِکائی) بناتے ہیں۔ ان میں شفاف خیالوں اور فطرت کی پکار سے معمور جذبوں کی لہریں جوار بھاٹا کا منظر نما معلوم ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسی تاثیر اور تاثر کا عمل ہے جو بہت کم نظم نگاروں کے ہاں مل پائے گا۔ نئی نظم نگاری کے ان تجربوں میں بحر کے اجزاءایسے صوتیوں میں تقسیم کئے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں مصرع کا آخری صوتیہ ، بعد میں آنے والے (ملحقہ) ذیلی مصرع سے پیوست ہوجائے جیسا کہ ان مثالوں میں ملے گا۔
گاﺅں کے اندر
”اُس“ کے احاطہ کی دیوار کی چھاﺅں میں بیٹھے
اپنے شکم کی آگ بجھاکر
اونٹ جگالی کرتے ہوں گے
کاش میں اک چرواہا ہوتا
دشت میں اونٹ چراتا پھرتا
اک گم نام مداری ہوتا
گلی گلی بندر کا کھیل دکھاتا پھرتا
گرم دوپہر کی دھوپ سے بچ کر
اُس کے احاطے کی دیوار کی چھاؤ ں میں بیٹھا
ایک نگاہِ غلط اندازکا سائل ہوتا
زخمی ہوتا گھایل ہوتا
کشف وجود کا روگ لگے
جُگ بیت گیا
لیکن اب تو
شہرت بھی
آزار ہوئی
یہ نظم اپنی مکمل ساخت کے اعتبار سے ، بالکل ایک نیا تجربہ ہے ، ممکن ہے اس کے ذریعے اردو کی نظم جدید کے چہرے پر طنز و تعریض کے لگے بہت سے داغ دُھل پائیں۔ ایسے تجربوں پر ژولیدہ خیالی ،ابہام اورانتشارِذہن کے جو طعنے سہنے پڑے ہیں اس نظم کو پڑھ کر شاید وہ بوجھ بھی ہلکا ہوسکے ، مجھے کوئی عار نہیں ، نظم جدید (خصوصاً نثری نظم) کے مخالفوں کی فہرست اگر کوئی ندیم مرتب کرے ، اور میرا نام بھی وہاں ملے کہ میں ایک طویل عرصے تک اس تبرہ ایجی ٹیشن کا فعال رکن رہا ہوں۔
فنون کے شمارے 8 ، سال 1978ءمیں ”شعور کی منفی رَو“ کے عنوان سے میرے تنقیدی مضمون پر احمد ہمیش ، افتخار جالب ، جیلانی کامران کے بہت سے طرف داروں نے کافی دیر تک ناک بھوں چڑھائے رکھی۔ مگر اب اعتراف کرتا ہوں ، تنگ نائے غزل کے مقابلے میں ،ہماری نظم جدید کا پیراہن زیادہ کشادہ ہے۔ پچھتاوا تو نہیں لیکن Confession کے قریب تر ضرور ہوں۔ اگر ہماری نئی نظم میں ایسے تجربات کچھ اورسامنے آئیں ، جن کا مظہر طالب جوہری کی نظم پچھتاوا کی صورت میں ملے تو کیا ہی اچھا ہو!
اب میں اس نظم کے اندرون معانی کی طرف آتا ہوں۔ ظاہری پیکر میں یہ نظم ضرور ہے ، اسے نظم کہیے لیکن فی الاصل ، یہ کسی خود نوشت کا پہلا ورق ہے ایسی خودنوشت جو ابھی لکھی نہیں جاسکی ، اور یہ کہ لکھنے والا ، اگر لکھنا بھی چاہے تو کبھی نہ لکھ سکے کہ اس دشت پرخطر میں ، ایسی ایسی کربلاﺅں کا سامنا ہے ، جن کا شمار بھی مشکل ہو۔ یہ نوشت ، اگر کبھی سامنے آئی تو اس کا پہلا باب ہوگا۔ کیا کھویا …. کیا پایا؟ جس ہنرپر اِس وقت ، اس شخص کی شہرت کا مدار ہے ، دراصل وہی اُس کا آزار بھی ہے لیکن اس حقیقت حال کو وہ ماضی کی پکار اور گزرے زمانوں کی یاد میں تحلیل کرکے تسکین خاطر کا سامان بہم کرنا چاہتا ہے مگر یہ تو ایک وصف اضافی ہے ، دنیا کے تمام بڑے آدمی خواہ کیسے ہی صاحب عسکر و لشکر ہوں ، چاہیں کہ مالک محراب و منبر ہوں ، زمانے بھر میں اُن کا طوطی بولتا ہو ، اپنے گزرے زمانوں ، اپنے جنمستانوں ، اپنے اوائل زندگی کے منظرناموں کو اپنی نگاہوں سے کبھی محو نہیں ہونے دیتے۔ خواہ اُن کا حال کتنے ہی عیش و طرب سے معمور ، خدام ادب ، غلام گردشوں ، پائیں باغوں ، پہرے داروں ، نقیبوں اور حاجبوں سے آباد ہو لیکن وہ اپنی شہرت کے عذاب سے پناہ مانگنے کے لئے گمنامی کے خواہاں رہتے ہیں۔
ماضی کے دامن میں سمٹ جانے ہی کو اپنی عافیت جانتے ہیں۔ اس نظم کو بھی شاعر نے ایسی ہی عافیت و امان کا استعارہ بنانے کی سعی کی ہے۔ وہ اپنی شہرت کے عذاب سے پیدا ہونے والے جہنم سے نکل بھاگنا چاہتاہے۔ اُس نے جانا کہ وہ اِس منزل موجود پر ، غلط راستوں کا سفر طے کرکے پہنچا ہے۔ اس نے اپنے اس حاصل کو پچھتاوے کا نام دیا۔ وہ چاہتا ہے اے کاش! میں چرواہا ہوتا ، جہاں پنگھٹ پر رہٹ چلتا تھا۔ کچی دیواروں پر کھپریل چڑھی ہوئی منڈیریں ہوتیں ، گلی گلی نٹ کھٹ کا تماشا ہوتا ، صدیوں پرانے درختوں کی شاخوں پر چمگادڑیں جھولتی نظر آتیں ، نرھیائی پر جنگلوں میں آئے ہوئے ، گائے ، بھینس اور بکریوں کے ریوڑ ہوتے ، پیڑوں ، میدانوں ، کھیتوں کھلیانوں میں وہ گھومتا پھرتا ، کیا ہی اچھا ہوتا! اُسے اپنے حال خوش منظر ، متمدن سماج اور مہذب معاشرے سے وہ زمین ، وہ زمانہ ، وہ لوگ زیادہ بھلے لگتے ہیں ، جو اپنی زندگی آپ جیا کرتے تھے۔ اب وہ اُن زمانوں کی طرف پلٹے تو کیسے پلٹے؟ اپنی شہرت و عظمت کا ایسا اسیر بے دام ہوا کہ رات کے اندھیرے میں بھی اپنے دریچوں سے سر باہر نکالے ، ڈرتا ہے ، کہیں کافروں کی تلاش میں نکلے ہوئے ، سپاہیوں کی گولی کا نشانہ نہ بن جائے۔
یہ نظم ایک ایسے آزردہ شخص کا نوحہ ہے جو اپنے کمال ہنر کا سزا یافتہ ہو۔ جو گھر سے نکلے تو حفاظت کی امان مانگے۔ اُسے تاسف ہے وہ کوچہ ہنروراں کی سمت کیوں آیا ، ہرچند کہ اِس ہنر میں تکریم بھی تھی اور تقدیس بھی۔ صلہ ثواب کی عمدہ بشارتیں بھی تھیں لیکن یہ سب کچھ جب سوہان روح بن جائے ، اُس کے کس کام کا؟ وہ سوچتا ہے ، اے روشنی طبع تو مجھ پر ایسی بلائیں نہ لاتی ، بہتر تھا کہ کمال ہنر کے اس عذاب سے میں آزاد رہتا۔ پہچان سے بری ہوکر شہرت کے اس طلسمی محل سے باہر نکل آتا ، اپنی زندگی آپ تو جیتا۔ یہ جینا بھی کیا جینا ہے؟ مجھ سے تو وہ بندر نچانے والا مداری بھی اچھا ہے ، جو کم از کم اپنی مرضی سے جی تو سکتا ہے۔
فیس بک کمینٹ