میں شورکوٹ کے ایک نواحی گاؤ ں سے تعلق رکھنے والی عام سی لڑکی ہوں بہت ہی عام اور سادہ سی زندگی گزری تھی پانچ سال کی عمر تک بیشتر دیہاتی بچوں کی طرح شب و روز گلیوں کی خاک چھانتے گزری پھر سکول میں داخل کروا دیا گيا نہ ہی پڑھائی کا شوق تھا اور نہ ضرورت محسوس ہوتی تھی سکول جانے کے بدلے ملنے والی خرچی کا حساب کتاب آرام سے کر لیتی تھی اور بھاو کر کے سودا سلف بھی لینا آتا تھا عید پر جمع ہونے والی عیدی ویسے ہی اماں کے حوالے کرنا پڑتی تھی جس کے بدلے تھوڑی سی رقم ہمیں مل جاتی تھی اور زندگی کا چکر خراماں خراماں گامزن تھا تبھی تو دس سال میں پانچ جماعتیں ہی پاس کر سکی اور پھر اماں نے سکول سے ہٹا کر گھرداری پر لگا دیا ۔
دن گزرتے گئے اور پھر عام سی لڑکی کا خاص دن آيا رنگوں کی ،روشنیوں کی بارات کے ساتھ حساب کتاب کی نوعیت بھی بدل گئی اب تک سکے ہی ذاتی جیب خرچ کے طور پر ملا کرتے تھے منہ دکھائی میں ملنے والے پچاس اور سو روپے کےبڑے نوٹ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میں بڑی ہو گئ ہوں۔۔میری زندگی میں مجھے ملنے والی اس پہلی بڑی رقم کا سب سے بڑا نوٹ ہرے رنگ کا پانچ سو روپے کا نوٹ تھا۔۔عورتیں اور لڑکیاں اپنی اپنی بولیاں بول رہی تھیں اور میں پانچ کے آگے لگے دو صفر دیکھ کر منصوبے بنا رہی تھی کہ ان کو کیسے خرچ کروں گی میری ذاتی فہرست لمبی تھی اور شاید ہی پانچ سو کا وہ اکلوتا نوٹ میری خواہشات کی تکمیل کا بوجھ اٹھا پاتا کہ ماضی نے خود کو دوہرایا اور اس بار میری اماں کی بجاۓ میرے شوہر کی اماں نے مجھے ملنے والی رقم اپنی تحویل میں لے لی ۔۔پانچ سو کا نوٹ اور میں کبھی ایک نہ ہو سکے۔۔۔
اب حساب کتاب کا پیمانہ بدلا اور دن گھر کے کاموں میں کٹنے لگے اسی دوران دو بار امید کی خوشی نے میرا آنگن دیکھا اور میں تین سال کے شادی شدہ عرصے میں دو لڑکیوں کی والدہ ٹھہری۔۔میں تو ہمیشہ کی طرح خوشی خوشی گھر اور بچوں کے کاموں میں جتی تھی ۔۔لیکن اکثر خاندان والوں کی زبان سے بیٹے کی خواہش میرے کانوں میں پڑنے لگي اور میری اماں کو بھی وہموں اور وسوسوں نے آ گھیرا مجھے معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ تب ہوا جب میری ساس نے منت مانی کہ لڑکا ہوا تو پانچ سو کی نیاز چڑھاوں گی۔۔۔پانچ سو کا وہ نوٹ مجھے سوتے جاگتے نظر آنے لگا اور پریشانی بھی بڑھنے لگی جیسے امتحان آنے سے پہلے ہوتی ہے ۔۔ بھوک پیاس اڑنے لگی جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا سانس اکھڑنے لگی میں تھوڑا چل کر ہی ہانپ جاتی تھی گاوں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا اور شہر جانے کی ضرورت بھی کیا تھی جب پہلی دو بار بھی گھر میں گاوں کی دائی نے کامیابی سے ڈلیوري کروائی تھی انہی حالات میں میں نے ایک لڑکے کو جنم دیا گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی بچے کو ہاتھوں ہاتھ لیا گيا مٹھائی بانٹی گئی لیکن اس سے پہلے کہ نیاز بانٹی جاتی اور بچے کو مبارکی دی جاتی میری گندمی رنگت میں زردیاں جھلکنے لگيں اور سانس سینے میں اٹکنے لگی جسم بخار کی حدت سے جھلستا رہا اور پھر ٹھنڈا پڑ گيا گھریلو ٹوٹکوں سے طبیعت نہ سنبھلی تو شورکوٹ لے جایا گيا سرکاری ہسپتال کے زچگی وارڈ میں مجھ سے سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا مجھ سے حمل کی تعداد ،آغاز سے لے کر تکمیل تک کے دورانیے کے متعلق سوال کیے گۓ میں تو پانچ سو روپے کا حساب نہ کر پائی تھی اتنے حساب کتاب کہاں کرتی سوئیاں چبھوئيں نالیاں لگائيں خون نکالا پھر خون چڑھایا کہ میرے خون کی طاقت بہت کم تھی جس وجہ سے بلڈ پریشر کم اور بہت سے جسمانی حصوں تک خون کی پہنچ تقریباً ختم تھی گردے جواب دے رہے تھے اور سانس اس قدر خراب تھی کہ مجھ سے چند جواب تک نہ دیے جاتے تھے۔۔حالات کے پیش نظر مجھے خاص نگہداشت اور علاج کی خاطر ایمبولنس میں ملتان نشتر بھیج دیا گيا میری عام سی زندگی میں یکایک اتنی تبدیلی آئی تھی کہ میں حیران کم اور پریشان زيادہ تھی۔۔۔ابتدائی معائنوں کے بعد فیصلہ ہوا اور مجھے میڈيکل وارڈ میں داخل کر لیا گيا۔۔عجیب سی دنیا تھی عجیب سے لوگ تھے اس دنیا کے حساب کتاب بھی عجیب تھے میرے ایک ایک گھونٹ اور دوا کے محلول کی مقدار سے لے کر جسم سے خارج ہونے والے ایک ایک قطرے کا سوال جواب کرتے تھے کسی کا لباس پورا سفید تھا کس نے صرف کپڑوں کے اوپر سفید کوٹ پہنا ہوا تھا اور گلے کے گرد ٹوٹیاں لگائی ہوئی تھیں کچھ ایک ہی رنگ کے قمیض پاجامے پہنے دوڑے چلے جاتے تھے کس کا بلڈ پریشر چيک کرتے کسی کی انگلی پر پرزے لگا کر دیکھتے اور پھر مریضوں کے منہ پر آکسیجن والے ماسک چڑھاتے اتارتے۔۔میرے لیے کمر کے بل سیدھا لیٹنا محال تھا میں بیٹھے بیٹھے ادھر ادھ دیکھتی رہتی اور جب تھک جاتی تو ذرا سا سر جھکا کر سستا لیتی۔۔جب کوئی مریض اچانک سے انتقال کر جاتا تو میرا دل کانپ جاتا اور دل چاہتا کہ بھاگ جاوں لیکن مجھ سے تو دو قدم بھی چلا نہیں جاتا تھا۔۔مقررہ بستروں کے مخصوص ڈاکٹر تھے میرے بستر کی ڈاکٹر ایک لیڈی ڈاکٹر تھی میری نالیاں اٹھا کر چيک کرتی میرے سینے پر ٹونٹیاں لگا کر معائنہ کرتی اور میرے صبح شام خون کے ٹیسٹ کرنے کے لیے خون نکلواتی مجھے ڈانٹ کر آکسیجن لگواتی جو میں دم گھٹنے کے خوف سے اتار دیتی تھی اور پھر ادویات کے نتائج خاطر خواہ نہ آنے پر اس ڈاکٹر نے میرے شوہر کو سمجھایا کہ میرے گردے کام نہیں کر رہے گردے کا کام مشینوں سے لینا پڑے گا ڈائيلسز کرنا پڑے گا۔۔وہ مجھے جسم میں جانس والے اور باہر آنے والے پانی کے حساب کتاب سمجھاتی کہ جتنا پانی باہر نکلنا چاہیے اگر اندر رہ گيا تو جان بھی جا سکتی ہے ڈانٹ پھٹکار اور نصیحتوں کے بعد ڈائيلسز کی نالی ڈالی گئ۔۔ اور میں نے مشینی گردے دیکھے جن میں نالیوں کے ذریعے میرا خون ڈالا جاتا اور صفائی کے بعد واپس میرے جسم میں ڈالا جاتا۔۔ میں سمجھ ہی نہیں سکی کہ اتنے بڑی مشینوں کا کام مٹھی بھر گردے کیسے کرتے ہوں گے تھکتے نہیں ہونگے پھر سوچا میرے گردے تھک ہی تو گئے تھے ۔۔
ہسپتال کی زندگی کے دن رات بھی عجیب تھے یہاں رات بھر دن ہی کا منظر لگتا تھا کوئی آرہا ہے کوئی جا رہا ہے ہر کوئی اپنے سے کسی بڑے کو جواب دہ ہے۔۔میری ڈاکٹر میری خاطر جونئير ڈاکٹر اور نرس کو ڈانٹتی تھی مجھے لگاۓ جانے والی دوا کی پابندگی کی تلقین کرتی لیکن اس کو بھی ڈانٹ پڑ جاتی تو اس کی آنکھیں ضبط سے لال اور رنگ سفید پڑ جاتا لیکن اس کی مجھے ٹھیک کرنے کی کوشش مزيد بڑھ جاتی اور سب کی محنت رنگ لائی میری طبیعت ٹھیک اور رپورٹیں بہتر آنے لگيں میرے ڈاکٹروں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آئی اور خدا خدا کر کے میری چھٹی منظور پائی ۔۔میرا دل کرتا تھا اپنی ڈاکٹر کو بڑا سا تحفہ دوں ۔۔بہت سوچ کر یہی سمجھ آئی کہ میں نے اپنی ڈاکٹر کو پانچ سو کا نوٹ دینا ہے میری اس فرمائش پر گھر والے ہنسنے لگے اور میری بات ماننے کی بجاۓ ڈاکٹر کو جا کر بتا دیا میں شرمندہ تھی لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے مجھ تھپکی دی اور کہا مجھے پانچ سو کا نوٹ نہیں چاہیے میں چاہتی ہوں تم مجھے پانچ سو دن تک یاد رکھو اور میرے لیے پانچ سو دعائيں کرو۔۔میں ان کو بتا ہی نہیں سکی کہ مجھے تو پانچ سو تک گنتی نہیں آتی لیکن ان کو میں چاہ کر بھی پانچ سو دن میں کیا پانچ سو سال میں بھی بھلا نہ سکوں گی۔۔۔ڈاکٹر صاحبہ کسی نئے آنے والے مریض کو دیکھنے چلی گئيں لیکن میرا اور پانچ سو تعلق جوڑ گئيں۔۔۔
فیس بک کمینٹ