”حق ادانہ کرسکیں گے“ ڈاکٹرحریم طارق کی کتاب نہیں بلکہ دسویں پاس کم سن حریم کی وہ آڑی ترچھی لکیریں ہیں جومیں نے استاد محترم حبیب الرحمن بٹالوی کاخاکہ کھینچنے کی کوشش میں لگادیں۔ استاد محترم کو خودنمائی پسند نہیں اس لیے اجازت اشاعت نہ ملی اور اتناعرصہ بیت گیا۔
دنیا کی نظر میں علمیت کاپیمانہ تعلیمی ڈگریاں اور اسناد ہوتی ہیں جبکہ استاد کی قابلیت کی حقیقی سند اس کے شاگرد ہوتے ہیں ۔بٹالوی صاحب تمام زندگی صلے کی پرواہ کیے بغیر اپنے لہو سے درس وتدریس کے چراغ جلا کر جگنو پالتے رہے ہیں کہ آپ کا تو مشغلہ ہے ” جگنوؤ ں کوپالنا اور روشنی بکھیرنا“آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ دعا ہے کہ سداجاری رہے۔۔۔
تعلیمی اداروں میں روایت ہے کہ تمام سال اساتذہ محنت کرواتے ہیں اور آخر میں تقریب انعامات میں بہترین طلباءکو نوازنے اور سراہنے کے ساتھ ہی سال ختم اور بات ختم ہوجاتی ہے۔آج کی تقریب اجتماعی طورپر تمام اساتذہ اور خصوصاً استاد بٹالوی صاحب کی سالہا سال کی محنت کااعتراف ہے۔
دنیا کے مکروفریب نے میری شخصیت پرایسے چرکے لگائے کہ عین ممکن تھا میرا اچھائی سے ایمان اور زندگی سے امید کاتعلق ٹوٹ جاتا۔ ایسے وقت میں استاد محترم نے کتاب کی اشاعت میں کوشش کی اجازت دے کر گویابجھتے ہوئے چراغ کوطوفان سے نکال کر لفظوں کی آغوش میں دے دیا۔
زندگی آپ کی عنایت ہے
ورنہ ہم لوگ مرگئے ہوتے
لفظ کاٹ لیتے ہیں۔ شیریں کوتلخ کردیتے ہیں لیکن لفظ ہی لفظوں کے زہرکاتریاق بنتے ہیں۔ آب حیات بن کر زندگی بخشتے ہیں۔ لفظ کتھارسس کرتے ہیں۔گرتے ہوﺅں کو تھام لیتے ہیں۔ سہارا دیتے ہیں۔ لفظ گھٹن زدہ ماحول میں ایسا روشن دان کھول دیتے ہیں جہاں سے دلفریب مناظرنظرآتے ہیں،خوشبو لیے بادصبا ادھر ادھرمنڈلاتی پھرتی ہے۔ مایوسی کے اندھیروں میں لفظوں کی کہکشاں زندگی کے راستے کاتعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
آپ سب کاشکریہ آپ کی آمد نے میری پذیرائی کی۔ ان پرانے دوستوں کا شکریہ جونئی منزلوں نئے راستوں کے مسافر ہونے کے باوجودتشریف لائے ہیں۔
یوں آرہی ہے بچھڑے ہوئے دوستوں کی یاد
جیسے چراغ جلتے ہوں راتوں کو گاﺅں میں
( سخن ور فورم کے زیر اہتمام کتاب کی تعارفی تقریب میں پڑھا گیا )
فیس بک کمینٹ