یہ جیون ایک خواب وخیال ہی تو ہے۔”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جوسنا فسانہ تھا“یہ مصرعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا۔ ہمیں پلک جھپکنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے لیکن کبھی ماضی پر ایک نظرڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سب کچھ پلک جھپکتے میں ماضی کاحصہ بن گیا۔خواب وخیال ہوگیا۔
خواب ہمارابہت بڑا سہارا ہیں۔ نفسیاتی توجیح جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خواب ہماری ناآسودہ خواہشوں کی تکمیل کا کام کرتے ہیں۔ وہ منظر جو ہم دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں اوردیکھ نہیں پاتے ان خوابوں کے ذریعے ہم ان منظروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ محبوب ہستیاں کہ جن سے ہمیں ملنے کی خواہش تھی اورہم انہیں نہیں مل سکے عالم خواب میں ہم ان ہستیوں کے ساتھ بھی ملاقات کرتے ہیں۔ کوئی پری پیکر جوکبھی ہم نے راہ چلتے میں دیکھا، جس کے ساتھ ہم نے کچھ وقت گزارا، یاجسے حاصل کرنے کی ہمیں خواہش رہی اور ہم اسے حاصل نہ کرسکے۔ ان خوابوں کے ذریعے وہ ہمارے ساتھ ہم کلام ہوتاہے صرف ہم کلام ہی نہیں ہوتامکمل طورپر ہماری دسترس میں ہوتاہے۔ ہم خواب میں اپنے ان پیاروں کوبھی دیکھتے ہیں جو کبھی ہمارے ہم سفر تھے اورپھر ہم سے ہاتھ چھڑا کر کسی موڑ پر چپکے سے راہی ملک عدم ہوگئے۔ سو اب وہ ہمارے ساتھ ہمارے خوابوں میں تو موجود رہتے ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ آپ لوگوں سے سب کچھ چھین سکتے ہیں لیکن ان کے خواب نہیں چھینے جاسکتے اور یہی وہ خواب ہوتے ہیں کہ پھر ہم جن کی تعبیر کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
یہ سب کچھ ہمیں ڈاکٹر مختار ظفر صاحب کی کتاب ”خواب وخیال کی باتیں (کارل مارکس اوراہل نظر کے ساتھ)“ کے مطالعے کے بعد یادآیا۔ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں جن خواہشوں کااظہارکیا ڈاکٹر مختار ظفر کی یہ کتاب انہی خواہشات کی تکمیل کی ایک کوشش ہے۔ لیکن انہوں نے ایک اور نقطہ نظر بھی اپنے سامنے رکھا اور اپنے پیش لفظ میں بتادیا کہ انہوں نے اس کتاب کے لیے ان شخصیات کاانتخاب کیا جو انتہائی نامساعد حالات، مزاحمتی مشکلات، حوصلے اور جی داری سے اپنے مقصود نظر پرپہنچیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرح خواب و خیال میں اپنی انہی محبوب شخصیات کے ساتھ مکالمے کیے ہیں۔کارل مارکس کے علاوہ سٹیفن ہاکنگ، فرانسس برنیئر، نطشے،مہاتمابدھ، رومی، ہیکل، گوئٹے، اینگلز، جارج برنارڈشاہ، بوعلی سینا، امام ابن تیمیہ، ژونگ، حسین بن منصورحلاج اورٹالسٹائی کے ساتھ مکالمے اس کتاب میں شامل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کتاب علم کا ایک خزانہ ہے۔اپنے نظریات اورخیالات کے ذریعے دنیا کا نقشہ تبدیل کردینے والی ان شخصیات کے حالات زندگی مکمل تعارف اور ان کی فکر کا اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ احاطہ کیاگیا ہے۔ڈاکٹر مختارظفر نے کمال یہ کیا کہ ان موضوعات کو جو عام طورپرخشک سمجھے جاتے ہیں اپنے مکالموں کے ذریعے دلچسپ بنادیا۔انہوں نے اپنے سوالات کے ذریعے ان شخصیات سے وہ بہت کچھ جاننا چاہا جو وہ خودتو جانتے تھے لیکن اس کتاب کے ذریعے ان کی فکر کو ہم جیسے طالب علموں تک بھی پہنچانا چاہتے تھے۔ اس میں مختلف مفکرین کے افکار کا موازنہ بھی کیاگیا۔ جلال الدین رومی اورہیکل کا موازنہ، رومی اورگوئٹے کاموازنہ اس کتاب کے پہلے حصے میں شامل ہے۔دوسرے حصے کو انہوں نے مجالسہ کا نام دیا ہے۔ اوراس میں ان تمام مفکرین اوران کے نظریات اورخدمات کا ان کی ذاتی زندگیوں کے حوالے سے بھی تفصیلی ذکرکیاہے۔ابن رشد، ابن خلدون، ابن سینا، حسین بن منصور حلاج کے تذکروں میں ڈاکٹر صاحب نے اسلامی اور مغربی افکار کابھی موازنہ کیا۔ ڈاکٹرصاحب خود چونکہ کئی زبانوں اور علوم پر دسترس رکھتے ہیں اس لیے ان تمام مضامین میں ہمیں قرآن وحدیث کے حوالے بھی دکھائی دیں گے،عربی و فارسی کے اشعار اور ضرب المثل بھی پڑھنے کوملیں گی جو ان مضامین کو قدیم وجدید فکرکا حسین امتراج بنا دیتی ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ بلاشبہ مجھے ایک نئے جہان میں لے گیا۔ایک ایسا جہان کہ جس سے میرے جیسا طالب علم تو ناآشنا ہی تھا۔اگر کچھ جانتابھی تھا تو بس سرسری اورناموں یا مختصر حالات اور نظریات کے تناظر میں۔
میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ ڈاکٹرمختار ظفر نے اس کتاب کی اشاعت کے لیے گردوپیش پبلی کیشنز کا انتخاب کیا۔یقینی طورپر یہ کتاب ہمارے مطبوعات کی فہرست میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوگی۔
فیس بک کمینٹ