ہم اس زمانے کے بچے ہیں کہ جب پاکستانی گھروں میں پی ٹی وی کا نو بجے والا خبر نامہ سننا ایک قسم کی مذہبی رسم تھی، میں دعویٰ کرسکتا ہوں کہ پی ٹی وی کے خبرنامے کے آخر میں موسم کی صورتحال میں اور کچھ بتایا جائے یا نہیں مالاکنڈ میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہمیشہ ہوتا تھا… آج تک ہم نے یہ زحمت بھی نہ کی کہ یہ جان ہی لیں کہ مالاکنڈ پاکستان میں کہاں واقع ہے؟ اسکی گرج چمک کے علاؤہ اور کیا اہمیت ہے؟ جب میڈیا سے واقفیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ کچھ خبریں، کچھ جملے ہماری ریاستی پالیسی کا حصہ ہیں نہ کہ حقائق….
جیسے بچپن سے سنا کہ پاکستان کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح اس ملک کے دشمنوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا،
کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے،
ہندوستان ہمارا دشمن ہے،
امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے،
پاکستان صبح قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے، وغیرہ وغیرہ….
جب سیاست دانوں کی تقریریں سنی تو احساس ہوا کہ ان کے پاس بھی دس بارہ جملے ہیں انہی کو آگے پیچھے کر کے یہ نیم کاریگر کام چلاتے ہیں، مثلا
اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نے ملک کو بحران سے نکال لیا ہے،
پاکستانی دنیا کی سب سے عظیم قوم ہیں،
جتنا ٹیلنٹ ہمارے پاس ہے دنیا میں کہیں نہیں،
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وغیرہ وغیرہ…..
پھر یہ دیکھا کہ انکے بارے رپورٹ کرنے والے بھی اتنے ہی بانجھ تھے اور ہیں انکے پاس عقل، الفاظ اور جملوں کا وہ قحط ہے کہ کیا غزہ کی پٹی میں غذا کا ہو گا مثلا
آبدیدہ ہوگئے،
گھل مل گئے،
تشویش کا اظہار کیا
شدید اظہارِ برہمی
نوٹس لے لیا
چوبیس گھنٹوں میں رپورٹ طلب کر لی گئی
جب یہ معلوم ہوا کہ ریاستی خبر اور اصل خبر میں کیا فرق ہوتا ہے تو متلی کی سی کیفیت ہوئی لیکن اب یہ متلی روز آتی ہے تو یہ اب روزمرہ کا معاملہ ہے…
"ریاستی خبر وہ ہے جو ریاستی گماشتوں کے مفاد کا تحفظ کرے اور اصل خبر وہ ہے کہ عوام کے درد کی ترجمان ہو”
ہمارے جیسی ریاستیں چونکہ عوام سے باہم متصادم ہوتی ہیں اس لیے عوام انٌ خبروں پر یقین نہیں کرتے جو ریاست انہیں بتاتی ہے اور ریاست کو اس سب سے کوئی سروکار نہیں جو عوام پر بیت رہا ہے..
کیا آپ نے کبھی یہ غور کیا کہ ہمارے لوگوں کا سرکاری املاک کی جانب کیا رویہ ہے؟؟ ایک مشہور شاعر کہ جو منسٹر بھی رہے ان کے ساتھ ایک مشاعرے سے واپس لاہور جاتے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ گاڑی چلا لیتے ہو میں نے انکی گاڑی دیکھی تو وہ بہت بڑی تھی میں نے کہا کہ یہ والی نہیں چلائی کبھی تو کہنے لگے سرکاری ہے ہاتھ صاف کر لو… یعنی اگر ٹھوک بھی دی تو کوئی بات نہیں….
میں اکثر سوچتا تھا کہ ہمارا ایسا رویہ کیوں ہے؟ تو استاد نے بتایا کہ جن ریاستوں کے عوام اور حکمران تصادم کا شکار ہوں وہ معاشرے ایسے ہی ہوتے ہیں…. ہم میں سے ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ ریاست اسکے پیسوں سے عیاشی کر رہی ہے جبکہ ریاست بیچاری ہر وقت یہی رونا روتی نظر آتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے؟؟
ایک ڈی ایس پی کے لیول کا سرکاری افسر جب اپنے دفتر سے باہر نکلنے والا ہوتا ہے تو دس منٹ پہلے باہر کھڑے ویگو ڈالے کا اے سی آن کر دیا جاتا ہے کہ جب تک صاحب باہر آئیں تب تک گاڑی ٹھنڈی ہو چکی ہو ورنہ کہیں صاحب کے رخِ مبارک پر کسی قسم کا پسینہ نہ آ جائے، میں عینی شاہد ہوں کہ جب تک کسی بڑے صاحب کی بیگم گاڑی میں بیٹھ نہ جائیں تب تک عملے کی جرآت نہیں ہے کہ وہ اندر گاڑی میں بیٹھ سکے یہ وہ رویہ ہے جو عوام کے دل میں موجود غصے کو تازہ رکھتا ہے اور جب ،جہاں اور جیسے موقع ملتا ہے عوام اپنے غصے کا بھرپور اظہار کرتے ہیں تبھی تو کسی کو سرکاری سکول، سرکاری اسپتال تو نہیں جانا لیکن سرکاری نوکری ہر ایک کو چاہیے تاکہ آپ اپنی محرومی کا بدلہ ریاست سے لے سکیں کیونکہ ہم میں سے ہر ایک اپنی محرومیوں کے لیے قصور وار ریاست کو ہی سمجھتا ہےاور سونے پہ سہاگا یہ کہ ریاست اور اسکے ادارے اس تاثر کے زائل کرنے کو کوئی اقدام بھی نہیں کرتے
مثلا پاکستان آرمی اس وقت اپنی مقبولیت کے پاتال میں گری ہوئی ہے عوام شدید غصے میں ہیں لیکن پھر بھی ادارہ اس تاثر کو زائل کرنے پر راضی نہیں سارا پاکستان یہ مانتا ہے کہ الیکشن اسٹیبلشمنٹ مینیج کرتی ہے لیکن اس مرتبہ ایک بار پھر تاریخ کے مشکوک ترین الیکشن کرا کے اس تاثر کو مزید تقویت دی گئی اور ضمنی انتخابات میں تو حد ہی ہو گئی…
یہ وہ ملک ہے کہ یہاں جب کوئی کسی عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کرتا ہے تو اسکو نوے فیصد یہ اعتماد ہوتا ہے کہ اس کو انصاف نہیں ملے گا لیکن ہماری عدالتیں مسلسل جانبدارانہ فیصلے سنا سنا کر اس تاثر کو اتنا مضبوط کر چکی ہیں کہ وہ اب آہنی ہاتھوں سے بھی نہیں ہلایا جا سکتا….
بیورو کریسی کے تو کیا ہی کہنے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ عوام سے کسی بھی تعلق کو گالی سمجھتے ہیں آپکے اے سی ، ڈی سی، اور کمشنروں کے کر و فر آج بھی ایسے ہیں کہ جیسے وہ مقبوضہ بھارت پر برٹش راج کے نمائندے ہوں، اشرافیہ اور عوام کا زخمی تعلق اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ اس کو لاہور لے جا کر بھی نہیں بچایا جا سکتا…
کیا ایک ایسا ملک بحال ہو سکتا ہے کہ جہاں کے عوام سیاسی اور سرکاری کسی بھی قسم کے حکمران پر اعتماد نہ کرتے ہوں؟؟
جہاں پولیس لٹیری،
فوج غاصب ،
عدالت خائن، اور
بیورو کریسی کرپٹ سمجھی جاتی ہو؟؟ جہاں لوگوں کو تقسیم کرنے کے تو تمام لوازمات موجود ہوں لیکن جوڑنے کو ایک چیز میسر نہ ہو، جہاں مذہبی رہنماؤں کی لڑائیاں اندرونِ مسلک بھی شروع ہو چکی ہوں؟؟ جہاں ایک ہی فرقے کے مولوی اسی فرقے کے دوسرے مولوی کو کافر ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہوں؟؟ جہاں آج تک چاند کی تاریخوں اور تراویح کی رکعتوں پر اتفاق نہ ہو سکا ہو؟؟ تو عام لوگ ان سے کیا مذہبی و سیاسی و سماجی رہنمائی حاصل کریں گے؟؟
جہاں آپکی یونیورسٹیوں میں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں پروفیسر حضرات کرتے ہوں، جہاں کے کھیلوں کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہو کہ یہ تو فکس تھا…
خود سوچیے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی جلسے میں بنگالیوں کو "سور کے بچے جہنم میں جائیں”کہا تھا اور جب یہ جملہ جب کسی بنگالی نے سنا ہو گا تو اس نے بجا طور کہا ہو گا کہ اچھا ہوا کہ ہم ان سے الگ ہو گئے….
جب میاں نواز شریف نے بھٹو اور اسکی بیٹی کو غدار اور انگریزوں کے کتے نہلانے والے قرار دیا تھا تو ضیاء الحق کی روح کس قدر شاد ہوئی ہو گی…
جب بینظیر بھٹو نے اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا ہو گا تو ان جیالوں کے گھر والوں پر کیا گزری ہو گی کہ جن کے بچوں کی زندگی عشقِ بھٹو کی وجہ سے جیل کھا گئی تھی….
شاید آج چوہدری پرویز الٰہی کو وہ وقت یاد آتا ہو کہ جب وہ پرویز مشرف کو سو بار وردی میں منتخب کرانے پر تٌلے ہوئے تھے اور چشمِ فلک نے دیکھا کہ وہ اسکے جنازے تک میں شریک نہ ہوئے….
شاید عمران خان اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر کبھی یہ ادراک کر سکیں کہ انکو لاشیں تو بلیک میل نہیں کر سکیں لیکن انکی پارٹی انکے دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہو گئی کس آسانی سے بیرسٹر گوہر چیرمین بن گئے اور شیر افضل مروت فرنٹ فیس اور سب نے مان بھی لیا، یہ سب کیسے ہوا شاید اب عمران خان سمجھ سکیں کہ بلیک میلنگ کیا ہوتی ہے….
میں دعا کرتا ہوں کہ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک یہ سمجھ گئے ہوں کہ عوام اتنے بھی گھامڑ نہیں ہیں جتنا انہوں نے سمجھ لیا تھا….
میں دعا کرتا ہوں کہ مریم نواز جو ایک ماں ہیں جن کے سینے میں عورت کا دل ہے کسی فوٹو سیشن کے دوران یہ سوچ سکیں کہ اس وقت کسان پر کیا بیت رہی ہے کہ جو فصل کاٹ بیٹھا ہے جس سے 3900 روپے فی من کا آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے اور آپ وہ اس سے 3000 روپے فی من پر خریدنے سے بھی گریزاں ہیں تو ذرا سوچیے کہ ایک ایسا کسان کے جس کی سال بھر کی کمائی کے اوپر گہرے کالے بادلوں کے مہیب سائے ہیں اور کسی بھی وقت بارش انکی سال بھر کی کمائی بہا کر لے جا سکتی ہے تو اس صورتحال میں وہ جب بی بی مریم کی پولیس کی وردی میں ملبوس تصاویر دیکھتا ہو گا تو کیا سوچتا ہو گا کہ کن لوگوں کے ہاتھ میں اس کی تقدیر ہے؟؟؟
آخری بات ہم عوام ہیں صاحب! ہم کو پڑھیں لکھی باتیں سمجھ نہیں آتیں ہمیں دوائیں ، خوراک ، بچوں کی بنیادی تعلیم، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور عزت و ناموس کے حفاظت سے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں کہ ہم سوچیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور صبحِ قیامت تک قائم رہے گا، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ سٹریٹیجک ڈیپتھ کیا ہوتی ہے، کیسے ففتھ جنریشن وار فیئر اس ملک کو تباہ کر رہا ہے ہم عام لوگ ہیں ہمیں عام سی باتوں سے غرض ہے کیونکہ ہمیں وہی سمجھ آ سکتی ہیں تب ہی ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں ہر وقت گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان کیوں موجود رہتا ہے؟؟
اور اس کا ہم سے کیا تعلق ہے؟؟ کیوں پاکستان کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا؟؟
اور وہ کون کون ہے جو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا جانتے ہیں؟؟ اور وہ کون سا وقت آئے گا جب یہ ملک نازک موڑ عبور کر جائے گا؟؟
بقول فیض صاحب
مینوں شاہی نئیں چاہی دی رب میرے
میں تےعزتاں دا ٹکّر منگناں واں
مینوں تاہنگ نئیں محلاں ماڑیاں دی
میں تے جیونے دی نُکّر منگناں واں
فیس بک کمینٹ