کیا قیامت ہے کہ ہر روز قیامت ہے۔ یہ کیسی زندگی ہے کہ جس میں موت ہے۔ یہ کیسا جیون ہے کہ جو جیون ہی نہیں۔ کبھی کان موت کی آواز سنتے ہیں، چیخ وپکار ، آہیں اور سسکیاں سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ اور کبھی آنکھ لہو رنگ مناظر دیکھتی ہے۔ ہر روز اک نیا سانحہ اور ہر روز روزِقیامت ۔ یہ کیسی نشانیاں ہیں قیامت کی کہ آج ہم بھی سانپوں کی طرح اپنے ہی بچے کھا رہے ہیں۔ اپنی ہی روحوں کو موت دے کر اپنا نوالہ بنا رہے ہیں اور پھر اس کے بعد یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ابھی زندہ ہیں، ہمیں کوئی نہیں مار سکتا، ہم زندہ قوم ہیں۔ یہ کیسی زندہ قوم ہیں ہم کہ کبھی سیالکوٹ میں دو بے گناہ بھائیوں منیب اور مغیث پر ٹوٹنے والی قیامت دیکھتے ہیں۔ کبھی ننھے فرشتوں کو پشاور میں گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں۔ اور کبھی قرآن پاک پڑھنے والے بچوں کو طالبان کے شبے میں ڈرون کا نشانہ بنتے دیکھتے ہیں۔ ہم کیسی قوم ہیں؟ ہم کیسے ماں باپ ہیں؟ ہم تو ہر محاذ پر اپنی اولادکو نشانہ بننے کے لئے آگے کر دیتے ہیں اور پھرکہتے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ارے کبھی اس ماں سے بھی پوچھا کہ جس کا لعل اس زندہ قوم نے چھین لیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کے لئے خدا سے ہمیشہ بھیک مانگتی ہے اوراس کی زندگی کے لئے جھگڑے کی حد تک خدا سے شکوہ بھی کرتی ہے اورحجت بھی۔ ماں تو یہی سوچتی ہوگی نا کہ بے شک یہ ساری زندہ قوم مر جائے مگر اس کا لاڈلا، اس کالعل ،اس کی آنکھ کا تارا اسے واپس مل جائے ۔ اے دین کے تمن دارو کبھی اللہ اس کے محبوب رحمت اللعالمین ﷺ سے بھی پوچھا کسی نے یا ان سے بھی اجازت لی کہ تم دین کی آڑ میں روز ایک نیا فتویٰ لگادیتے ہو۔ کبھی اس تاریخ کو بھی دیکھو،پڑھو اور سمجھو کہ جب اللہ کی سب سے پیاری ہستی اپنے اوپرکوڑا پھینکنے والوں کو معاف کررہی تھی اور اپنے شفیق چچا کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف کرکے انسانیت کی ایک تاریخ رقم کر رہی تھی۔اور جو پتھرمارنے والوں کو گلے لگارہی تھی۔خدا کا نام لیکر خدا کے قہر کو آواز دینے والو یہ کیوں بھول گئے کہ خدا کا پیار تو ستر ماﺅں کے پیار سے بھی زیادہ ہے۔جب ایک ماں کبھی برداشت نہیں کرتی کہ اس کی گستاخ اولاد کو بھی کبھی تپتی دھوپ یا ٹھٹھرتی سردی کاسامنا ہویا وہ آہ بھی نہیں کرتی کہ کہیں اس کی آہ اولاد کے لیے بددعا نہ بن جائے تو پھرکیا اللہ اپنے انسانوں اور اپنی تخلیق سے تمہارا یہ سلوک پسند کرے گا۔تم اس رحمان اور رحیم کی رحمت کو کیوں بھول جاتے ہو جو تمہارے تمام گناہ آلود اعمال کے باوجود تمہیں سب کچھ دے رہاہے۔کیوں بھول جاتے ہو کہ یہ صرف اس کی رحمت کی وجہ سے ہے ۔تمہارے کسی عمل یا محنت کا نتیجہ نہیں۔ اے دین کے نام نہاد ٹھیکیدارو کبھی اپنے گھر سے نوجوان لاشہ اٹھا کر دکھاﺅ۔ کبھی اللہ اور رسول ﷺ کی حرمت کے نام پر اپنے جگر کے ٹکڑے کو تو زخم لگاﺅ۔ پھردیکھو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ کیوں رلاتے ہو بے بس ماﺅں کو؟ اللہ اکبر کا مطلب سمجھتے ہو تو سمجھ جاﺅ کہ وہ بہت بڑا ہے۔اسے تمہاری آنکھ میں پوشیدہ تعصب کا بھی علم ہے اور اس منافقت کی بھی خبر ہے جو تم اس کے اور اس کے محبوب کے نام پر کرتے ہو۔ اے زندہ قوم ،اے زندہ قوم،میں ایک ماں ہوں جس کادل اس کی اولاد میں دھڑکتا ہے۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ تم زندہ قوم ہو یانہیں۔مجھے بس میرا لعل لوٹا دو۔
فیس بک کمینٹ