یہ 15 اپریل 2017ء کی گرم دوپہر کا تذکرہ ہے کہ مَیں منشی عبدالرحمن خان کے پوتے قمرالزمان خان کے پاس بیٹھا ہوا کمپوزنگ کا کچھ کام کروا رہا تھا کہ میرے موبائل پر لاہور سے برادرم افتخار مجاز کا ایک سوالیہ پیغام آتا ہے کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جناب مختار مسعود کا انتقال ہو گیا ہے؟ مَیں وہ پیغام پڑھتا ہوں تو خاموش ہو جاتا ہوں کہ مَیں جس جگہ موجود تھا وہاں پر مختار مسعود بڑی باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ ان کا یہ تعلق تب بنا جب وہ 1962ء میں ملتان کے ڈپٹی کمشنر تعینات کیے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایوب خان کا مارشل لاء پورے عروج پر تھا۔ ملک میں عوام کے لیے نت نئے قوانین متعارف کرائے جا رہے تھے۔ ایسے میں مختار مسعود کی ملتان تقرری عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھی۔
ابھی مَیں اس خبر کی تصدیق کے لیے رضی سے رابطہ کرنے کو سوچ رہا تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ مختار مسعود کا انتقال ہو گیا ہے۔ مَیں گزشتہ تیس منٹ سے مختلف ٹی وی چینل کو تبدیل کر کے دیکھ رہا ہوں لیکن کہیں سے مختار مسعود کی موت کی خبر کی تصدیق نہیں ہو رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں جان لیں کہ رضی کو بھی افتخار مجاز کی طرح مختار مسعود کی موت کی خبر کی تصدیق درکار تھی۔ اب مَیں بھی ان کی موت کی خبر کو تلاش کرنے کے لیے ٹی۔وی کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک گھنٹہ بعد رضی الدین رضی نے فون کر کے یہ کہا یار شاکر مختار مسعود کوئی ایان علی نہیں تھے۔ وہ تو لکھاری تھے اس لیے مَیں نے اسلام آباد میں مقیم اپنے دوست کے ذریعے خبر کی تصدیق کر لی ہے کہ جناب مختار دوست کی آواز دوست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔
مختار مسعود کی کتاب ’’آواز دوست‘‘ سے یاد آیا کہ ان کی یہ کتاب سینکڑوں مداحوں کو اشعار کی طرح زبانی یاد تھی۔ خانیوال کے نامور مزاح نگار و کالم نگار شعیب الرحمن مرحوم اپنی گفتگو میں ’’آواز دوست‘‘ کے حوالے یوں دیتے تھے جیسے یہ کتاب مختار مسعود کی نہ ہو خود شعیب الرحمن نے لکھی ہو۔ مختار مسعود میری پیدائش سے پہلے ملتان میں ڈی۔سی رہے۔ اس کے بعد پھر مَیں نے بے شمار احباب سے سنا کہ وہ ان کے ساتھ مستقل رابطے میں ہیں۔ مثال کے طور پر ملتان سے تبادلے کے بعد منشی عبدالرحمن خان اپنے بیٹے نذیر احمد خان کے ہمراہ لاہور جاتے تو وہ ان کی پُرتکلف میزبانی کرتے۔ منشی عبدالرحمن خان کے ساتھ مل کر انہوں نے ملتان کے ادیبوں کے لیے بہت کام کیا۔ ایوب خان کے زمانے میں رائٹرز گلڈ کو عروج ملا اور ملتان میں اہلِ قلم کے لیے رائٹرز کالونی کا احیاء کیا گیا۔ اسی طرح جب مختار مسعود ملتان میں بطور ڈپٹی کمشنر آئے تو ملکی حالات مارشل لاء کی وجہ سے خاصے سخت ہو چکے تھے۔ بقول عمر کمال خان ایڈووکیٹ ’’مارشل لاء کے نت نئے اوٹ پٹانگ احکامات سے ملتان کے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی اگر مختار مسعود ڈپٹی کمشنر ملتان نہ ہوتے۔ انہوں نے اپنی اپنی جرأت، ہوشمندی اور مارشل لاء حکام کے تعاون اور اعلیٰ سمجھ بوجھ سے ضلع ملتان کے لوگوں کو مارشل لاء کے احکامات کی سختی سے بچا لیا۔‘‘
ملتان میں اپنی تقرری کے دوران انہوں نے بے شمار ایسے مسئلے حل کیے جو ناممکن تھے۔ مثال کے طور پر گھنٹہ گھر چوک پر نجی بجلی پیدا کرنے والے ادارے کا ایک دفتر سرکاری جگہ پر موجود تھا۔ مالکان وہ دفتر چوک گھنٹہ گھر سے کسی اور جگہ پر منتقل کرنے کے لیے تیار نہ تھے لیکن انہوں نے بجلی گھر کا سب سٹیشن نہ صرف یہاں سے منتقل کرایا بلکہ وہ جگہ بھی عوام الناس کے لیے مختص کر دی۔ آج کل اس جگہ پر یعنی چوک گھنٹہ گھر میں خوبصورت فوارہ نصب ہے۔ مختار مسعود نے اپنے دور میں ضلع ملتان کی چھ تحصیلوں کی گھڑ سواری کے ذریعے گرداوری کی۔ زمینداروں اور کسانوں کے مسائل موقع پر جا کر حل کیے۔ وہ ایوب خان کے سخت ترین دور میں عوامی رہنما کے طور پر چاہے گئے۔ انہی کے دور میں ملتان میں متوسط طبقہ کے لیے انتہائی کم کرایہ کے تحت شاہین مارکیٹ کا منصوبہ مکمل ہوا۔
مسعود اشعر نے اپنی ملتان کی یادوں کے حوالے میں لکھا ’’جب روزنامہ امروز ملتان نے شہر کی تقریبات کے لیے ایک ہال تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا تو مختار مسعود نے بطور ڈپٹی کمشنر ریکس سینما کے ساتھ ہال بنانے کا منصوبہ پیش کیا۔ اس کا نام انہوں نے ایوانِ اورنگ رکھا۔ مختار مسعود کا کہنا تھا کہ اورنگزیب چونکہ ملتان میں رہ چکا ہے اس لیے ہال کا نام یہی ہونا چاہیے۔‘‘ وہ ہال ان کے زمانے میں نہ بن سکا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو منصوبہ 1962ء میں سامنے آیا اس کی تکمیل ملتان کے سابق ڈی۔سی۔او جناب زاہد سلیم گوندل کے ہاتھوں ’’ملتان ٹی ہاؤس‘‘ کے نام سے ہوئی۔ یعنی جو خواب 1962ء میں دیکھا گیا اس کی تعبیر 55 سال بعد ملی۔
مسعود اشعر نے اپنے ملتان قیام کے زمانے کا ایک اور واقعہ کچھ یوں لکھا کہ وہ نومبر کے دنوں میں مختار مسعود سے ملنے ڈی۔سی ہاؤس گئے تو دیکھا مختار مسعود سردی کے موسم میں باریک ململ کا سفید کرتا پاجامہ پہنے بیٹھے ہیں۔ مسعود اشعر نے پوچھا ملتان کی گرمی منا رہے ہیں؟ کہنے لگے میرا اعتبار نہ کرنا اگر تم جون جولائی میں آؤ گے تو ہو سکتا ہے مَیں تم کو تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے ملوں۔
مختار مسعود کے کریڈٹ میں 5 کتب ہیں جن میں (1) آواز دوست (2) سفر نصیب (3) تاریخ کے عینی شاہد (انگریزی) (قائد اعظم کے نام لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ) (4) مغربی پاکستان کی سرزمین کا جائزہ (قدرتی وسائل پر ایک تحقیقی کتاب) (5) لوحِ ایام شامل ہیں۔ ان کی تین کتب آواز دوست، سفر نصیب اور لوحِ ایام لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئیں۔ وہ ان کتب کی قیمت اتنی کم رکھتے تھے کہ کم سے کم وسائل رکھنے والا بھی ان کی کتابیں بخوشی اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیتا۔ ان کی آخری کتاب لوحِ ایام کا جب پہلا ایڈیشن منظر عام پر آیا تو انہی دنوں میں ملتان میں کتابوں کی فروخت کے حوالے سے ایک بڑا نام ملک عطاء اﷲ (نظریاتی اور ترقی پسند سیاستدان) مالی مشکلات کا شکار تھے۔ ملک صاحب کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ لوحِ ایام شائع ہو کر مارکیٹ میں آنے والی ہے تو ملک صاحب مختار مسعود کے پاس گئے۔ اپنے حالات کے متعلق بتایا تو معلوم ہوا مختار مسعود نے انہیں ملتان کے لیے سینکڑوں کتب یہ کہہ کر دے دیں کہ جب فروخت ہو جائیں تب ادائیگی کر دینا۔ پھر ہم نے دیکھا ملک صاحب کے پاس ہر ادارے کی کتاب ختم ہو جاتی لیکن مختار مسعود کی کتب کا سٹاک ختم نہ ہوتا۔
15 دسمبر 1926ء کو علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے مختار مسعود کے والد پروفیسر شیخ عطاء اﷲ تھے۔ مختار مسعود نے پہلی جماعت سے لے کر ایم۔اے تک کی تعلیم علی گڑھ کی مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ہر امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے۔ طالب علم کی حیثیت سے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔ 1945ء میں علی گڑھ مسلم فیڈریشن کے جریدہ ’’بیداری‘‘ کے معاون مدیر رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد مقابلے کے پہلے امتحان میں سول سروس آف پاکستان (سی ایس پی) کے لیے منتخب ہوئے۔ 39 سالہ طویل دورِ ملازمت میں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ ملتان میں بطور ڈی سی جہاں بہت سے کام کیے وہاں انہوں نے شاہی مسجد عیدگاہ کی از سرنو تعمیر کی نگرانی بھی کی۔ لاہور کے کمشنر کی حیثیت سے انہوں نے ’’مینارِ پاکستان‘‘ مکمل کرایا۔ برکت علی محمڈن ہال کی مرمت و توسیع اور مسجدِ شہداء تعمیر کرائی۔ زرعی ترقیاتی بینک کے چیئرمین رہے۔ واپڈا کے رکن کے طور پر بھی کام کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1987ء تا 1989ء ایڈمنسٹریٹو سٹاف کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ اس سے پہلے 1960ء میں اس دو رکنی ٹیم میں بھی شامل تھے جنہوں نے یہ سٹاف کالج قائم کرنے کے لیے تجاویز کو فائنل کیا تھا۔ 1978ء تا 1982ء تک تہران میں آر۔سی۔ڈی کے سیکرٹری جنرل رہے۔ اُسی دور کے بارے میں ان کی آخری کتاب ’’لوحِ ایام‘‘ کو آج بھی بہت پسند کیا جاتا ہے۔
ان کی مشہور زمانہ کتاب آواز دوست کا جواب بھارت سے ایک نامور ادیب نے ’’جواب دوست‘‘ کے نام سے دیا لیکن اس کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو آواز دوست کے حصے میں آئی۔ یاد رہے آواز دوست کی پہلی اشاعت یکم جنوری 1973ء کو ہوئی۔ اپنی کتابوں کے سرورق کے معاملے میں بھی وہ اتنے مستقل مزاج تھے کہ جو سرورق انہوں نے پہلے ایڈیشن کے لیے بنوایا وہی سرورق اب تک شائع ہو رہے ہیں۔ مختار مسعود چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایسی روایات چھوڑ گئے جن کو نبھانا آج کے سول سروس کے ارکان کے لیے بہت مشکل ہے۔ وہ سچے، کھرے، ایماندار، پاکستان سے محبت کرنے والے، مصنف، محقق، معلم، منتظم، قانون دان، سیاح، ماہر معاشیات، تحریکِ پاکستان کے نوجوان کارکن اور لاکھوں دلوں پر حکمرانی کرنے والی ایک ایسی شخصیت تھے جو شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے، دولت کمانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے۔ اور اپنی کتابوں کے ذریعے پڑھنے والوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف نہیں کیا کہ ان کی کتابوں کی قیمتیں آج بھی مارکیٹ میں سب سے زیادہ کم ہیں کہ وہ اپنی کتابیں خود شائع کر کے مارکیٹ میں لاتے تھے۔ 15 اپریل 2017ء کو ایک ایسا ادیب ہم سے جدا ہواجس کی ہمارے پاس کوئی مثال نہیں۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)