پروفیسر ڈاکٹرحسن عسکری رضوی صاحب کا بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انتخاب عجیب اور غیر معمولی بات تو ہے کہ یہاں اکثر عبوری اور نگراں مدت کے لئے وزرائے اعظم اور دیگر اعلیٰ عہدوں کے لئے شخصیات درآمد کرنے کی روایت ہے۔ اپنے اردگرد بسنے والے ہیروں کو ہم کم کم اہمیت دیتے ہیں۔ ہماری توجہ ان بھاری بھرکم شخصیات کی طرف ڈولتی رہتی ہے جن کے ناموں کے ساتھ سینکڑوں مربعوں، کارخانوں اور ملکوں ملکوں اثاثوں کا ذکر جڑا ہو۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ایسے فرد کو نگراں وزیر اعلیٰ کی خدمات سونپی گئی ہیں جن کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب ہے۔ ان کی قابلیت اور اہلیت کے خانے میں دانش، سچائی اور کمٹمنٹ کے حروف کندہ ہیں۔ وہ اصولوں اور ضابطوں کی پیروی کرنے والے انسان ہیں ۔ وہ چاہے سیاسی حوالے سے خاص نظریہ رکھتے ہوں مگر عملی طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران کسی کے حق اور کسی کے خلاف جانا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام عمر دیانت اور شفافیت کے رستے پر چلنے والوں کا من ایسے نظام میں ڈھل چکا ہوتا ہے جہاں راہِ راست سے ہٹنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ تاہم بڑے عرصے سے گورنر ہاؤ س کی راہداریاں کسی اہل علم و ادب کو خوش آمدید کہنے کے لئے منتظر ہیں۔ چلیں وزیر اعلیٰ ہاؤ س میں تو دانش کچھ ماہ قیام پذیر رہے گی اور یقینا اس کا مثبت اثر نہ صرف آئندہ انتخابات میں نظر آئے گا بلکہ پاکستان کی سیاسی صورت حال میں بھی دکھائی دے گا۔ کچھ لوگ ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پڑھنے لکھنے والے، دانش مند قسم کے لوگ اس طرح کے انتظامی عہدوں کے لئے موزوں نہیں ہوتے بلکہ خود اسی طبقے کے لوگ بھی انہیں اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست میں ایک خاص قسم کے لوگوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے حالانکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے شفاف لوگوں کو اس طرف ضرور آنا چاہئے۔
آج کل ہر طرف خواتین کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے تذکرہ ہو رہا ہے۔ کم از کم میڈیا نے عوام کو شعور دینے کے ساتھ ساتھ وہ بنیادی سوال بھی اٹھائے ہیں جن کا جواب تلاش کر لیا جائے تو جمہوریت استحکام کی طرف سفر شروع کر سکتی ہے۔ مشرف دور میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا آغاز بھلے نیک نیتی سے ہوا ہو مگر اسی وقت طریقہ کار بھی طے کر لیا جاتا تو عام ورکرز، ٹیکنو کریٹس اور معاشرے کو بدلنے کا عزم رکھنے والی خواتین اسمبلی میں پہنچ کر اپنا کردار ادا کرتیں جس سے ملک میں خواتین کی حالت بہتر ہوتی، قانون سازی میں نئی چیزیں شامل ہوتیں اور نچلے طبقے کے مسائل زیر بحث لا کر ان کا حل تجویز کیا جاتا۔ اب ان سیٹوں کو لوٹ مار کی سیٹیں تصور کر لیا گیا ہے اور یہ صرف سیاسی جماعتوں کے قریبی رشتہ داروں تک محدود ہو گئی ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا معاملہ وہ واحد ایشو ہے جس پر تمام سیاسی جماعتیں ایک ڈگر پر چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ سب کا نقطۂ نظر اور ترجیح ایک ہے کہ صرف سرکردہ رہنماؤ ں کی بیویاں، بہنیں، بھابھیاں، بیٹیاں، بہوئیں اسمبلی کی مخصوص نشست کے لئے اہل ہوں گی۔ پچھلی دفعہ ایک شخص میرے پاس مٹھائی لے کر آیا، وجہ معلوم کی تو کہنے لگا آپ خاتون ہیں اور یہ سن کر خوش ہوں گی کہ ہمارے گھر کی پانچ خواتین قومی و صوبائی اسمبلی میں پہنچ گئی ہیں، میری دو بہنیں، دو بھابھیاں اور خالہ۔ میں نے کہا والدہ صاحبہ کا کیا قصور تھا؟ انہیں کیوں محروم رکھا۔ کہنے لگا، ان کی طبیعت خراب رہتی ہے، چل پھر نہیں سکتیں۔ اب سال میں ایک دو بار تو جانا ہی چاہئے اس لئے انہیں تکلیف نہیں دی ورنہ پارٹی کی طرف سے تو ایسی کوئی قدغن نہیں تھی۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان نشستوں پر انتخاب کا طریقہ کار کیا ہے؟ یوں عورت کو اسمبلی میں ایک معتبر کردار ادا کرنے کی بجائے گنتی اور حاضری کے لئے رکھا گیا ہے۔ خود وہاں پہنچنے والی بہت سی خواتین کو یہ بور کلاس روم کی طرح محسوس ہوتا ہے جہاں دل بڑا کر کے کچھ گھنٹے گزارنا ہی ہوتے ہیں۔ اکثر کزنز اور رشتہ داروں کو وہیں مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔ اس قانون سازی سے اسمبلی میں صرف رنگ برنگے لباس، زیورات اور خوشبوؤ ں کا اضافہ تو ہوا مگر سیاست، معاشرت اور نظام کی بہتری کے لئے عورت کی آواز کبھی سنائی نہ دی۔ چند سیاسی جدوجہد کرنے والی خواتین ہی بولتی دکھائی دیتی ہیں۔ انہیں بھی اس لئے برداشت کر لیا جاتا ہے کہ لڑائی جھگڑا کرنے اور سیاسی نکات پر بولنے اور شور کرنے کے لئے بھی کچھ آوازیں درکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح الیکشن لڑ کر آنے والی خواتین زیادہ بااعتماد اور اپنے فرائض کو احسن طریقے سے سرانجام دیتی ہیں۔ تاہم پارٹی کی ترقی کو زندگی کا مشن قرار دینے والی، الیکشن کے وقت پولنگ بوتھ پر تن من سے ڈیوٹی سرانجام دینے والی، گھر گھر جا کر ووٹ مانگنے والی خواتین ورکرز صرف اپنے بچوں کو کلرک بھرتی کروا کر یا بیٹی کی شادی پر جہیز کا تحفہ لے کر راضی ہو جانے والی خوشی سے مشقت کے رستے پر چلتی رہتی ہیں ان کے بارے میں کب سوچا جائے گا؟ طبقاتی فرق تبھی ختم ہو گا جب یہ خواتین اسمبلی میں پہنچیں گی اور اپنی کلاس کے مسائل، اپنے علاقے کے معاملات اور اپنے بچوں کے مستقبل کو نظر میں رکھتے ہوئے پاکستان کی اکثریت کی بات کریں گی۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر جماعت تحصیل لیول سے اپنی خواتین کارکنان کو نامزد کرے اور کچھ سیٹیں ٹیکنو کریٹ کے لئے وقف کی جانی چاہئیں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں پارٹی رہنما کے خاندان کے علاوہ ہر بااثر ایم این اے، ایم پی اے اپنی بیوی، بیٹی، بہن کو بھی یوں ساتھ لے جاتا ہے جیسے اسمبلی نہ ہو کسی ہوٹل میں شام کا کھانا کھانے جا رہا ہو۔ ان عورتوں کی سیاسی جدوجہد کیا ہے؟ کیا اس بارے میں بھی پارلیمانی پارٹی غور و فکر کرتی ہے یا رشتے داری ہی اہلیت ہے۔ گزشتہ دس سال جمہوری حکومتوں نے اپنا سفر مکمل کیا مگر ابھی تک اپنے اندر جمہوری اقدار کو فروغ نہیں دے سکیں۔ اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی اہلیت اور حوصلہ پیدا نہ کر سکیں۔ اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پیروی کی بجائے ذاتی پسند ناپسند ہی اہم سمجھی گئی۔ اگر خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کا یہ مخصوص کوٹہ مخصوص رشتہ داروں تک محدود رکھنا مقصود ہے تو اسے ختم کر دینا چاہئے اور عورتوں کو الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر اسمبلی میں آنا چاہئے۔ دنیا میں کہیں بھی یہ لوٹ مار رائج نہیں۔ سالانہ کروڑوں کی تنخواہیں اور آسائشیں چند خاندانوں میں گردش کرنے کی بجائے یہ پیسہ خواتین کی بہبود پر بھی خرچ ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی ورکرز کو اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہئے اور اہلِ دانش کو بھی اس موضوع کو زیر بحث لا کر اس میں بہتری کی کوشش کرنی چاہئے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے اعلیٰ جمہوری قدروں کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے اور جمہوری قدروں میں سب سے پہلا نمبر جمہور کو مساوی حقوق دینا اور طبقاتی فرق کو کم سے کم کرنا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ