سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے ممتاز لیڈر چوہدری نثار علی خان نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے نواز شریف کے بارے میں زبان کھولی تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ چوہدری نثار علی خان کا یہ اعلان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پارٹی ٹکٹ دینے سے پہلے انٹرویو کے لئے بلانے کے بعد سامنے آیا ہے۔ انہوں نے راولپنڈی کے چار حلقوں سے آزاد امید وار کے طور پر انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ انہوں نے اپنے 34 سالہ سیاسی کیرئیر میں کبھی ٹکٹ کے لئے درخواست نہیں دی۔
چوہدری نثار علی خان کے اس اعلان کی کافی عرصہ سے توقع کی جا رہی تھی۔ وہ ملک کی اسٹبلشمنٹ کے قریب ہیں اور یہی ان کی سیاسی قوت کی اصل وجہ ہے۔ نواز شریف نے جب بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بطور وزیر اعظم یا اب اپوزیشن کرتے ہوئے کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے کی کوشش کی تو ان کے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان ان کے راستے کی دیوار بنے۔ تاہم جب سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے بعد چوہدری نثار نے انتہائی مشکل وقت میں نواز شریف کا ساتھ دینے کی بجائے ان پر تنقید کرنے اور مریم نواز کو سیاسی نابالغ قرار دینے کی کوششیں شروع کردیں تو ان حالات میں نواز شریف کے لئے چوہدری نثار علی خان کے ساتھ تعلق استوار رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔
شہباز شریف بھائی کے ساتھ سیاسی بغاوت نہیں کر سکے اور پارٹی کے صدر بننے کے باوجود نواز شریف کو قائد اعلیٰ مانتے ہوئے تمام اہم فیصلوں میں ان کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ بعض مبصرین اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ اگر نواز شریف پارٹی معاملات میں اختیار شہباز شریف کے حوالے نہیں کریں گے تو مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ جبکہ بعض مبصرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شہباز شریف کارکردگی دکھانے کے باوجود ووٹر اور عوام کے دل میں گھر نہیں کرسکے۔ مسلم لیگ (ن) کو ملنے والا ووٹ اب بھی نواز شریف کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے اور یہی ان کی سیاسی طاقت بھی ہے۔
تاہم شہباز شریف کی طرف سے بھائی سے بغاوت خاندانی ثقافت کی وجہ سے بھی ممکن نہیں۔ نواز اور شہباز شریف کی والدہ ابھی حیات ہیں اور ان کی زندگی میں دونوں بھائی انہیں ایسا صدمہ دینا گوارا نہیں کریں گے۔ ان دونوں بھائیوں کے سیاسی اختلافات کے بارے میں خبریں اکثر گردش کرتی رہتی ہیں۔ شہباز شریف کو چوہدری نثار کی طرح اسٹبلشمنٹ کا دوست قرار دیا جاتا ہے۔ ان دونوں کی حکمت عملی رہی ہے کہ فوج سے تصادم کا راستہ اختیار کرنے اور منتخب نمائیندے کے طور پر اپنے حق و اختیار پر اصرار کرنے کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی بات کو سنا جائے اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اقتدار کا جو بچا کھچا حصہ ہو اس پر گزارا کرلیا جائے۔تاہم اس قسم کے انتظام میں قیادت کرنے والے ہر سیاسی لیڈر کو کبھی نہ کبھی یہ احساس ضرور ہو جاتا ہے کہ نتائج کی ذمہ داری سیاسی قیادت کو قبول کرنا پڑتی ہے اور اسے ہی غلط فیصلوں کے بارے میں مطعون کیا جاتا ہے لیکن اس سے اسٹبلشمنٹ اپنا فائدہ حاصل کرنے اور خود سرخرو رہنے میں کامیاب رہتی ہے۔ ا س لئے پارٹی کی سربراہی اور حکومت کی قیادت کرنے والے کو اس ’مفاہمت‘ میں کسی نہ کسی سطح پر خسارہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ نواز شریف بھی 2013 کی فتح کے بعد اس انتظام کا بخوبی حصہ بنے رہے تھے بلکہ گزشتہ انتخابات میں کامیابی کے لئے انہوں نے جمہوریت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے لئے میمو گیٹ اسکینڈل کا حصہ بننا بھی قبول کیا تھا ۔اس سے بھی بڑھ کر جب ان کی حکومت کے دوران ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور فوجی اسٹبلشمنٹ نے اسے قومی سیکورٹی کے اصول سے ملا کر سب ذمہ داروں کے خلاف کارورائی کا مطالبہ کیا تو نواز شریف نے اپنے متعدد ساتھیوں کو قربان کرنا تو پسند کرلیا لیکن پارلیمنٹ کے سامنے جا کر سچ بتانے اور اپنی بے بسی کا فسانہ سنانے کے لئے تیار نہ ہو سکے۔ اس کی ایک بڑی وجہ چوہدری نثار علی خان جیسے ساتھی اور مشیر بھی تھے جو پابند جمہوریت کو آزادی اور اصولوں کی سیاست پر ترجیح دیتے رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اکتوبر 2016 میں ڈان کے سیرل المیڈا نے سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان جس اجلاس کی بنیاد پر رپورٹ فائل کی تھی جسے بعد میں ڈان لیکس کے نام سے شہرت حاصل ہوئی، اس میں شہباز شریف نے ہی یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ سویلین اتھارٹی اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیان تال میل نہ ہونے کی وجہ سے افسوسناک صورت حال پیدا ہوتی ہے اور بعض انتہائی ناپسندیدہ لوگ قانون کے شکنجے سے بچ جاتے ہیں۔ اس طرح ملک کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم فوج نے اس رپورٹ کی صداقت پر بات کرنے کی بجائے اسے من گھڑت قصہ قرار دے کر سویلین حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی ۔شہباز شریف نے چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی کم کرنے اور انہیں اپنی طرح مفاہمت کرتے ہوئے پارٹی میں شامل رہنے پر رضا مند کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن بظاہر یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ گو کہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی ابھی تک اس بارے میں کوئی بات کرنے سے انکار کیا ہے۔ اب جولائی میں ہونے والے انتخابات سے پہلے ٹکٹ دینے کے سوال پر یہ تنازعہ کھل کر سامنے آگیا ہے اور چوہدری نثار علی خان نے نہ صرف پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے بلکہ دو قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) نے بھی چوہدری نثار علی خان کو واک اوور دینے کی بجائے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ البتہ انتخابات قریب آنے پر پتہ چلے گا کہ تحریک انصاف چوہدری نثار کا مقابلہ کرتی ہے یا انہیں جتوانے میں مدد فراہم کرے گی۔سیاسی اختلافات کی بنیاد پر سیاسی علیحدگی اختیار کرلینا کسی بھی سیاسی انتظام میں مناسب رویہ ہے بلکہ اسے کسی سیاست دان کی اصول پسندی کہا جائے گا۔ لیکن چوہدری نثار علی خان نے جس عذر پر پارٹی سے علیحدہ راستہ اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے وہ بے بنیاد، غیر جمہوری اور افسوسناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواست کیوں دیں۔ یعنی وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی مخلوق ہیں جو دوسرے امید واروں اور سیاسی کارکنوں سے مختلف ہے۔ خواہ دکھاوے کے لئے ہی سہی مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی پارٹی ٹکٹ لینے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں۔ تو چوہدری نثار علی خان کو ایک جمہوری لیڈر کے طور پر اگر عوام سے ووٹ مانگتے ہوئے شرم نہیں آتی تو پارٹی سے ٹکٹ کی درخواست کرتے ہوئے ان کی عزت کیوں داؤ پر لگ جاتی ہے۔اس کے علاوہ نواز شریف پر وار کرتے ہوئے چوہدری نثار نے یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پارٹی مریم نواز کے حوالے کر دی ہے حالانکہ ماضی میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے وہ سیاست میں خواتین کی شرکت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ یہ بات تارٰیخی طور پر درست ہونے کے باوجود ایک اچھی دلیل نہیں ہو سکتی۔ جو سیاسی لیڈر بھی ملک کی نصف آبادی کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا حق نہیں دینا چاہتا اسے مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نواز شریف نے ماضی میں خواتین کی سیاست میں شرکت کے حوالے سے منفی رویہ اختیار کیا تو وہ غلط تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے مؤقف سے رجوع نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ مریم نواز کو بلاشبہ نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کا فائدہ حاصل ہے لیکن گزشتہ برس نواز شریف کی نااہلی کے بعد سے انہوں نے جس دلیری سے سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کو زندہ رکھا ہے اس کی وجہ سے ہی وہ اپنی سیاسی صلاحیتیں منوانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
چوہدری نثار علی خان ایک ایسے وقت میں اپنے پرانے رفیق اور رہنما کو نیچا دکھانے کا اعلان کررہے ہیں جب نواز شریف احتساب مقدمات میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں اور قومی سیاست میں اپنی پارٹی کو سیاسی بحران اور زوال سے بچانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نواز شریف کی ذات پر حرف زنی کے باوجود اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ’ووٹ کی عزت ‘ کو لاحق خطرات اور انتظامی اور سیاسی معاملات میں سپریم کورٹ کی نو دریافت شدہ دلچسپی اس ملک میں جمہوریت کے لئے حالات کو ناسازگار بنا رہی ہے۔اس کا اعتراف نواز شریف کے بد ترین مخالفین بھی کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے موقع پر نواز شریف کے خلاف مہم جوئی کا حصہ بن کر چوہدری نثار علی خان اس گمان کو یقین میں بدلنے کاکردار ادا کریں گے کہ ملک میں انتخابات سے پہلے ایسے انتظامات کئے جارہے ہیں جن سے انتخابی نتائج متاثر ہوں اور پارلیمنٹ میں کسی بھی ایک پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکے۔ اس طرح درپردہ ڈوریاں ہلانے والے اپنی مرضی کا وزیر اعظم بنا کر ملک کےجمہوری نظام کو فوجی اختیار میں رکھنے کا اہتمام کرسکیں گے۔ ایسا ہی تجربہ مارچ میں صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چئیر مین بنوا کر کیا جاچکا ہے۔اب وزارت عظمی کے لئے چوہدری نثار علی خان میں ایک نیا سنجرانی بننے کی ساری صلاحیتیں موجود ہیں۔ مسلم لیگ (ن) سے نثار علی خان کا کوچ وزارت عظمی کی طرف ان کے سفر کا پہلا بڑا قدم ہو سکتاہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں جب تک شریف خاندان موجود ہے ، کسی بھی دوسرے لیڈر کو اعلیٰ انتظامی سیاسی عہدہ نہیں مل سکے گا۔ گزشتہ بار بھی انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تھے لیکن یہ مقصد حاصل نہ ہونے پر وہ وزیر داخلہ کے طور پر حکومت میں بیٹھ کر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتے رہے۔معلق پارلیمنٹ وجود میں آگئی تو وزارت عظمیٰ کے لئے چوہدری نثار علی خان جیسے شخص کی مانگ بڑھ جائے گی۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کو بھی قبول ہوں گے۔ کیوں کہ وہ ابھی سے کہہ چکے ہیں کہ اگر تحریک انصاف میں 10 غلطیاں ہیں تو مسلم لیگ (ن) میں 100 نقص ہیں۔ شہباز شریف کی قیادت میں ایک ایسی مسلم لیگ بھی جو اپنی خواہش اور توقع سے بہت کم نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں پہنچے گی، چوہدری نثار کو وزیر اعظم تسلیم کرنے اور اس طرح اقتدار میں کچھ حصہ وصول کرنے کی کوشش کرے گی۔ یا کم از کم سیاسی نقشہ بندی کرتے ہوئے اس کا قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اسی صورت میں البتہ شہباز شریف وزیر اعظم نہ بننے کا گلہ صرف نواز شریف سے نہیں کرسکیں گے بلکہ ان کا دیرینہ دوست اور ساتھی ان کے اس خواب کو چکنا چور کرنے کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے۔
( بشکریہ : ہم سب لاہور )
فیس بک کمینٹ