صوفی مٹی کی خوشبو کو وسیلہ بنا کے کائنات کے رازوں اور دکھوں سے جڑت قائم کرتا ہے۔ قدموں تلے موجود مٹی اُس کا دنیا سے پہلا تعارف ہے۔ وہ پہلے اس کی زبان، مزاج اور تاثیر سے آشنائی حاصل کرتا، پِھر اُس سے کلام کرتا ہے۔ اِس باہمی رابطے کے دوران اسے مدفن خزانوں تک رسائی عطا کی جاتی ہے۔ وہ خزانے جو پوری کائنات میں پھیلے ہوتے ہیں۔ صوفی ہوا میں اُڑنے اور مصنوعی رنگ اپنانے کی بجائے زمین کے لوگوں کو گلے لگاتا ہے۔ ان کی عادات، رویے، دشمنیاں، دوستیاں، حرص اور خواہشات کا مطالعہ کر کے ان کی اخلاقی تربیت کے لئے سوچتا ہے۔ یوں جب وہ اپنے اردگرد کے واقعات کو احساسات سے جوڑ کر بات کرتا ہے تو اُس میں منطقی اور آفاقی رنگ سما جاتا ہے۔ صوفی جُز سے کل کی طرف سفر کرتا ہے تو پورے زمانے کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک مقصدیت سے جُڑا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی نگاہ بھی خیر کے دِیے جلاتی، حوصلہ دیتی اور اُمید بندھاتی ہے۔ وہ انسانی قدروں کا صرف پرچارک نہیں بلکہ طاقتور علامت ہے۔ اس کے ہر قول اور ہر فعل میں کوئی نہ کوئی سبق مشتہر ہوتا ہے۔ یوں سماج میں خیر کی ترویج کے لئے ان تمام صوفیاء کا کردار خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جنہوں نے اپنے رویے اور کلام سے معاشرے میں انسانی اور اخلاقی قدروں کو یوں پختہ کیا کہ وہ پہلے کلچر اور پھر عادات کا روپ اختیار کر گئیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کالج اور یونیورسٹیاں تھیں نہ میڈیا، زیادہ لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اس وقت صوفی معاشرے کا روحانی و اخلاقی معلم تھا اور زندگی بہت بہتر تھی۔ لوگ جو کلام سنتے اُسے حفظ کر لیتے بلکہ روح میں سمو لیتے اور رفتہ رفتہ وہ ان کے وجود میں سرایت کر جاتا۔ ان کا دل اسے اصول بنا کر لاگو کرتا اور پابندی کو رضا میں شامل کر دیتا۔
ہر سال سات ذوالحج کو عظیم صوفی شاعر اور ولی میاں محمد بخشؒ کا عرس منعقد کیا جاتا ہے۔ اِس سال 29 جولائی کو اُن کا 117 واں عرس منایا گیا۔ میاں محمد بخش کے کلام کا نمایاں پہلو اس کا اخلاقی رنگ ہے۔ صرف سیف الملوک میں ایسے سینکڑوں شعر موجود ہیں جو ضرب المثل کا درجہ اختیار کرچکے ہیں۔ لوگ ان سے زندگی گزارنے کا سلیقہ اخذ کرتے ہیں۔ دُکھ کی دھوپ میں انھیں سایہ بنا لیتے ہیں اور آزمائشوں میں اُن سے تدبیر کا گُر سیکھتے ہیں۔ جس دور میں میاں محمد بخش نے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ ’’دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا‘‘ تو اسے پڑھنے والے صرف سننے اور لطف اندوز ہونے تک محدود نہیں تھے بلکہ اس کے معنی سے جڑے ہوئے تھے اور انہیں خبر تھی کہ اگر دشمن کی بربادی پر خوش ہوں گے یا کسی کو تکلیف پہنچائیں گے تو کل ہمیں بھی یہ جھیلنا پڑ سکتا ہے۔ جب رسمی تعلیم عام ہوئی تو پھر صوفیاء کی تعلیمات ہم سے دور کر دی گئیں، ایک مصنوعی تعلیمی ڈھانچہ سامنے آگیا۔ جو نوکریاں تو مہیا کر رہا تھا لیکن اچھے انسان نہیں بنا رہا تھا، زمینی دانش سے جڑت پیدا نہیں کر رہا تھا، لوگ رٹا لگا کر بڑے عہدوں پر پہنچ گئے تھے لیکن ان میں انسانیت مفقود ہوگئی تھی، وہ تنگ نظری کا شکار ہوتے گئے۔ نسلوں، قوموں تک نہ رہے بلکہ ذات پات اور فرقے بازی کا شکار ہو کر سکڑنے لگے۔ آج یہ عالم ہے کہ ہر فرد ایک الگ مدرسہ اور ضابطۂ فکر بن چکا ہے جِس کے اپنے اصول اور تشریح ہے۔ اپنی سوچ سے برعکس نظریات کے حامل لوگ اسے گوارا نہیں۔ نئی نسل کی اخلاقی تربیت اور معاشرتی توازن کے لئے صوفیا کے کلام کو نصاب کا حصہ بنانا بہت ضروری ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود خود بھی مادری زبانوں اور صوفیاء سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کے دور میں یہ امیدکی جاسکتی ہے کہ وہ معاشرے میں امن اور روداری کی ترویج کے لئے صوفیاء کے کلام کو نصاب کا حصہ بنائیں گے۔ صوفی مذاہب کی اصل روح انسانیت اور خدمت خلق کو شعار بناتا ہے اور یہی عمل معاشرے کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔ ورنہ ہر آنے والا دن بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کے حوالے سے شدت پسندی کا مظہر بنتا جاتا ہے۔ میاں محمد بخشؒ کی شاعری کا کمال ان کے اخلاقی و انسانی قدروں کی ترویج کرنے والے وہ اشعار ہیں جو دِلوں میں وسعت اور فکر میں روشنی کرتے ہیں۔ ان کا مخاطب کل عالم کے انسان ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار دنیا کی بےثباتی، محنت کی عظمت، سماجی رویوں میں شائستگی اور احترامِ آدمیت کا مظہر ہیں۔ دُعا میں بھی ذات نہیں کُل خدائی شامل ہے۔
اول حمد ثناء اِلٰہی جو مالک ہَر ہَر دا
اُس دا نام چِتارن والا کِسے میدان نہ ہَردا
بال چِراغ عشق دا میرا روشن کردے سِیناں
دِل دے دیوے دی رُوشنائی جاوے وِچ زمیناں
وَیری دی کر اَدب تواضع اپنی بَھو گوائیے
دشمن تھیں خَم کھائیے ناہیں لِسیّاں زور نہ لائیے
کجھ وَساہ نہ سَاہ آئے دا مان کہیا پِھر کَرناں
جِس جثے نوں چَھنڈ چَھنڈ رکھیں خاک اندر وَنج دَھرناں
کنڈے سخت گلاباں والے دوروں دیکھ نہ ڈرئیے
چہباں جھلیئے، رَت چوائیے جھول پھلَیں تَدھ بھرئیے
رحمت دا مِینہ پا خُدایا باغ سُکّا کر ہَریا
بوٹا آس اُمید مِری دا کردے میوے بَھریا
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ