بھارتی ریاست راجھستان کے علاقے اودھے پور میں ایک ہندو درزی کا سر قلم کرنے کے بعد پورے ضلع میں حالات تشویشناک ہیں۔ ہندو تنظیموں نے غیرمعینہ مدت کے لئے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ حکام صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے پہلے گزشتہ روز نئی دہلی میں پولیس نے ایک مسلمان صحافی محمد زبیر کو مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ تاہم ان کا اصل قصور گزشتہ ماہ بی جے پی کی لیڈر نوپور شرما کے توہین مذہب و رسالت پر مبنی بیان کو عام کرنا ہے۔
اودھے پور میں آج سہ پہر پیش آنے والا واقعہ درحقیقت نو پور شرما کے بیان کے بعد پیدا ہونے والی مذہبی منافرت ہی کا حصہ ہے۔ نوپور شرما نے گزشتہ ماہ کے دوران ایک ٹی وی مباحثہ میں پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ گفتگو کی تھی۔ وہ اس وقت حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی ترجمان کے عہدے پر فائز تھیں۔ بھارت میں یہ خبر سامنے آنے کے بعد حکمران جماعت یا حکومت نے کسی قسم کا افسوس ظاہر کرنے کی بجائے اسے نظرانداز کرنا مناسب سمجھا۔ تاہم جب یہ معاملہ میڈیا کے ذریعے عرب اور دیگر مسلم ممالک کے نوٹس میں آیا تو اس پر بھارت سے شدید احتجاج کیا گیا۔ خاص طور سے قطر ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین وغیرہ نے بھارتی سرکاری ترجمان کی طرف سے اس قسم کی گستاخانہ گفتگو کو ناقابل قبول قرار دیا تھا۔ عرب ممالک نے بھارت سے اس بیان پر معافی مانگنے اور متعلقہ عہدیدار کی مناسب سرزنش کا مطالبہ کیا تھا۔اس عالمی دباؤ کی وجہ سے بی جے پی نے پہلے نوپور شرما کے بیان سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے ، اسے پارٹی عہدے سے فارغ کیا اور ان کا بیان ٹوئٹر پر عام کرنے والے ایک دوسرے پارٹی لیڈر کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ عرب و مسلمان ممالک سے تعلقات بحال رکھنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک بیان میں یہ اعلان بھی کیا کہ پارٹی مذہبی منافرت پر یقین نہیں رکھتی اور تمام عقائد کا احترام کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ یہ بیان مرکز اور متعدد ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتوں اور ان کی سرپرستی میں متحرک ہندو انتہا پسند گروہوں کے عملی رویہ سے میل نہیں کھاتا لیکن بھارت کی حکمران پارٹی نے خارجہ تعلقات میں پہنچنے والے نقصان پر قابو پانے کے لئے نوپور شرما کے خلاف کارروائی کرنا اور اس کے بیان سے فاصلہ ظاہر کرنا ضروری سمجھا۔ اسی حوالے سے نوپور شرما کے خلاف مذہبی منافرت کے الزام میں مقدمہ بھی درج کیا گیا اگرچہ بھارتی مسلمانوں کے متفقہ مطالبہ کے باوجود اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ البتہ سوموا رکو نئی دہلی پولیس نے اس خبر کو عام کرنے اور پورا سچ دنیا کے سامنے لانے والے صحافی محمد زبیر کو 2018 کی ایک ٹوئٹ کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس ٹوئٹ میں انہوں نے ملکی مذہبی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔
محمد زبیر کے خلاف 2020 کے ایک ٹوئٹ کے الزام میں بھی مقدمہ قائم کیا گیا تھا لیکن اس معاملہ میں انہوں نے قبل از گرفتاری ضمانت لی ہوئی تھی۔ ان کے ساتھی پرتیک سنہا نے بتایاہے کہ پولیس نے اسی معاملہ میں تفتیش کے لئے محمد زبیر کو بلایا تھا لیکن انہیں کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا ہے اور اصل الزامات سے آگاہ بھی نہیں کیا گیا۔ پرتیک سنہا نے اپنے بیان میں لکھا ہے کہ ’زبیر کو آج دہلی سپیشل سیل میں تفتیش کی غرض سے بلایا گیا تھا۔ یہ کیس 2020 کا تھا اور اس میں زبیر نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی تھی۔ تاہم آج شام پونے سات بجے ہمیں آگاہ کیا گیا کہ انہیں کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے لیے انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا جو قانون کی رو سے دینا ضروری ہے‘۔ محمد زبیر گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے ایک ٹی وی پروگرام میں پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا بیان کو منظر عام پر لانے اور ٹوئٹر کے ذریعے اس خبر کو عام کرنے کے بعد نمایاں ہوئے تھے۔ ہندو گروہ شد و مد سے یہ مطالبہ بھی کررہے تھے کہ ’زبیر کو گرفتار کیا جائے اور اُن پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں‘۔ نوپور شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد زبیر کے ٹویٹس کے بعد سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔بھارتی حکومت نے محمد زبیر کو گرفتار کرکے درحقیقت نوپور شرما کے خلاف ابھرنے والے احتجاج کو دبانے اور ہندو انتہا پسند گروہوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس دوران اسلامی ممالک کے شدید احتجاج کے علاوہ بھارت کے متعدد شہروں میں مسلمانوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ان مظاہروں میں متعدد افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔ بھارتی ریاستوں کی حکومتوں نے مسلمانوں کے احتجاج کو دبانے کے لئے سول قوانین کے تحت ایسے متعدد مسلمان لیڈروں کے گھروں کو بلڈوزروں سے مسمار کردیا تھا جن پر احتجاج منظم کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ بظاہر یہ تمام گھر ناجائز تجاوزات قرار دے کر بلڈوز کئے گئے ہیں لیکن سول سوسائیٹی اور مسلما ن تنظیموں کو یقین ہے کہ بی جے پی کی ریاستی حکومتیں مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ایک جائز مسئلہ پر ہونے والے قانونی احتجاج کو دبانے اور کسی حد تک ہندو انتہاپسند گروہوں کی تشفی کے لئے اس سنگین اور غیر انسانی کارروائی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ابھی تک بھارتی عدالتوں نے مسلمانوں کو اس حوالے سے کوئی ریلیف دینے کا عندیہ نہیں دیا ۔ متعدد عدالتوں میں دائر کی گئی درخواستوں پرکوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
تصادم اور غم و غصہ کی اسی فضا میں اگرچہ بیشتر مسلمان تنظیموں نے احتجاج سے گریز کرنے اور حکومت پر دباؤ کے لئے سیاسی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی بعض عاقبت نااندیش مسلمان لیڈر ’گستاخ کی سزا ، سر تن سے جدا‘ کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ اس دوران القاعدہ کی مقامی برانچ نے بھی متنبہ کیا تھا کہ بھارت میں توہین مذہب و رسالت کے مرتکب ہونے والے عناصر پر حملے کئے جائیں گے اور انہیں ہلاک کیا جائے گا۔ البتہ آج اودھے پور میں ایک ہندو کا سر قلم کرکے پہلی بار اس قسم کی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق حملہ آور موٹر سائیکلوں پر سوار آئے اور درزی کا کام کرنے والے کنہیا لال تیلی کو دکان سے گھسیٹ کر باہر نکالا اور تلوار سے اس کا سر قلم کرکے فرار ہوگئے۔ کنہا لال موقع پر ہلاک ہوگیا۔ پولیس نے بعد میں دو افراد کو حراست میں لے لیا تھا تاہم اس اندوہناک واقعہ کے خلاف سامنے آنےوالا رد عمل شدید تھا اور اودھے پور میں امن و امان کی صورت حال تشویشناک ہے۔ اس واقعہ سے ہندوستان میں پہلے ہی مشکلات اور ناانصافی کا شکار مسلمانوں کو مزید پریشانی کا سامنا ہوگا۔ جبکہ ہندو انتہاپسند گروہوں کے علاوہ بی جے پی کی انتہا پسند حکومتوں کو پرامن مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا ایک نیا بہانہ ہاتھ آجائے گا۔
اودھے پور میں مبینہ طور ایک ہندو کے قتل کا واقعہ ایک ایسے وقت رونما ہؤا ہے جب وزیر اعظم نریندر مودی جی سیون کے اجلاس میں شرکت کے بعد جرمنی سے واپس آتے ہوئے ایک روزہ دورہ پر ابو ظہبی پہنچے تھے۔ بظاہر اس دورہ کا مقصد متحدہ عرب امارات کے سابق صدر شیخ خلیفہ بن زید النیہان کی رحلت پر امارات کے نئے صدر شیخ محمد بن زید النیہان سے تعزیت کرنا ہے لیکن سفارتی حلقوں نے تصدیق کی تھی کہ وزیر اعظم اس موقع پر گستاخانہ بیانات پر عرب لیڈروں کے غم و غصہ کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ عین اسی وقت اودھے پور میں بہمیانہ طریقے سے ایک ہندو کو قتل کیا گیا ہے۔ مرنے والے پر الزم تھا کہ اس نے سوشل میڈیا پر نوپور شرما کی حمایت کی تھی۔ اس مجرمانہ کارروائی کو براہ راست اسٹریم بھی کیا گیا تھا۔ اس لئے اس جرم کو کسی اچانک غصہ کا نتیجہ کہنا مشکل ہوگا بلکہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کسی مسلمہ دہشت گرد گروہ کی مدد سے یہ کارروائی کی گئی ہے۔
فوری رد عمل کے طور پر بھارتی حکومت مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اور تند و تیز بیان دے کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی ۔ لیکن اگر اس واقعہ کو طویل المدت تناظر میں دیکھا جائے تو یہ واقعہ بھارت میں گروہی تشدد اور دو بڑے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان تصادم، نفرت اور بداعتمادی کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوگا۔ بھارتی حکومت مسلمانوں کو دبا کر یا ان کے جائزمطالبات کو نظر انداز کرکے ہندوستان میں ہندو اکثریت کی مکمل بالادستی کے سیاسی منشور پر عمل پیرا ہے۔ اسی سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر پولیس اور سیکورٹی ادارے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتے ہیں، حکومت مقبوضہ کشمیر کے علاوہ شہریت قانون کے ذریعے بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے اقدامات کررہی ہے ، آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے محروم کرکے مہاجر کیمپوں میں دھکیلا جارہا ہے اور ہندو انتہا پسند گروہ مسلمانوں پر حملے کرکے نفرت، خوف اور تشدد کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان بھی مذہبی انتہا پسندی کے ایک طویل دور سے گزر چکا ہے اور مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے لوگوں کو خوں ریزی اور لاقانونیت کی طرف مائل کرنے والے مذہبی سیاسی گروہ بدستور توانا ہیں۔ بھارت میں مذہبی تفرقہ بڑھنے کے اثرات بھارت تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ ایک بار پھر پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش بھی اس نفرت اور تشدد کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ اصولی طور پر تو برصغیر کی سیاسی قیادت کو مل کر اس سنگین مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور سیاسی اختلاف کی موجودہ فضا میں اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ بھارتی حکومت اپنے ملک میں ہونے والے ہر سانحہ کا الزام پاکستان پر عائد کرتی ہے ،بعینہ پاکستانی لیڈر بھی اپنے ہاں ہونے والے تشدد اور لاقانونیت کا ذمہ دار بھارت کو قرار دینے میں دیر نہیں کرتے۔ اس کا ایک مظاہرہ اتحادی حکومت میں انسانی حقوق کے وزیر ریاض پیرزادہ نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ لاپتہ ہوجانے والے افراد کے معاملہ پر بات کرتے ہوئے ان کا دعویٰ تھا کہ ان میں سے متعدد لوگ بھارتی ایجنٹ ہیں اور پاکستان میں زیر حراست جاسوس کلبھوشن یادیو سے بھی رابطہ میں رہے تھے۔ عدالتوں میں ججوں کے ریمارکس سے برعکس انسانی حقوق کے وفاقی وزیر نے شہری حقوق کی خلاف ورزیوں پر سیکورٹی فورسز کے اقدامات کی تائد کی اور یوں خود کو ملک میں انسانی حقوق کا محافظ ثابت کرنے کی بجائے ناانصافی اور لاقانونیت کا وکیل بنا لیا۔
پاکستان کی طرح بھارتی حکومت کے نمائیندے بھی ملک میں سماجی بے چینی ، افتراق اور تشدد کی اصل وجوہ جاننے کی بجائے اس صورت حال کو بعض گروہوں کے خلاف طاقت کے استعمال میں عذر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ برصغیر کے دونوں ملکوں کی حکومتوں کا یہ رویہ علاقے میں وسیع المدت سماجی انتشار اور انارکی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ تشدد کی موجودہ صورت حال کی حقیقی وجوہ سے نمٹنے کے لئے اگر علاقائی اور وعالمی سطح پر ٹھوس کام کا آغاز نہ ہوسکا تو برصغیر میں مذہبی تشدد کامعاملہ روس یوکرائن جنگ سے بھی زیادہ بڑے المیہ کو جنم دے سکتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ناروے )
فیس بک کمینٹ