کیا صدر عارف علوی موجودہ حکومت، پاکستان تحریک انصاف پر مشتمل حزب اختلاف اور اداروں کے درمیان مفاہمت کی کسی کوشش میں مصروف ہیں؟ یہ کوشش کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے اور اس میں اب تک کیا پیشرفت ہو پائی ہے؟
یہ سوالات گذشتہ کئی دنوں سے سیاسی حلقوں میں زیر بحث تھے لیکن ان اطلاعات میں زیادہ وزن صدر مملکت کے ایک حالیہ انٹرویو سے پیدا ہوا۔
نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدر علوی سے سوال ہوا کہ کیا ایوان صدر موجودہ سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر کر رہا ہے اور کیا پاکستانی عوام اس سلسلے میں کسی اچھی خبر کی توقع کر سکتے ہیں؟
صدر علوی نے اس سوال کا جواب کچھ یوں دیا ’میں پیشگوئی نہیں کروں گا مگر میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں پُرامید ہوں۔ ہر اچھی کوشش میں اللہ برکت ڈالتا ہے۔‘
صدر مملکت کے اس انٹرویو کے چند روز بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ’دنیا‘ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کافی اہم ہے اور اس کا اختیار نئی منتخب حکومت کو ہونا چاہیے۔
جب اُن (عمران خان) سے پوچھا گیا کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی تو نومبر میں ہونی ہے مگر الیکشن اس کے بعد، تو اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اس کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ملک کی بہتری کے لیے اگر اس کی پرووژن نکل سکتی ہے، وکیلوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس کی پرووژن نکل سکتی ہے کہ جب الیکٹڈ حکومت آئے وہ فیصلہ کرے۔‘
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے صحافی حامد میر سے بات کی جنھوں نے چند روز قبل صدر پاکستان کا انٹرویو کیا ہے۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ’میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ صدر مملکت کے توسط سے کچھ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔‘
سیاسی فریقین میں سے کون کس سے ملا ہے؟ اس سوال کا واضح جواب دینے پر کوئی تیار نہیں۔ البتہ صحافی عظیم چودھری ایک اور پیشرفت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جس کے مطابق پرویز خٹک، اسد عمر اور فواد چودھری جیسے رہنماؤں کے حکومت کے ساتھ رابطے ہوئے تھے جن میں قبل از وقت انتخابات پر فریقین آمادہ ہو گئے تھے لیکن عمران خان نے اس مفاہمت کو ’ویٹو‘ کر دیا۔
وفاقی کابینہ کے ایک ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خواجہ آصف اور پرویز خٹک کے درمیان رابطوں کی تصدیق کی ہے۔
رابطہ کرنے پر تحریک انصاف کے رہنما پرویز خٹک نے اپنی ملاقات کی تردید کی تاہم انھوں نے سیاسی رہنماؤں میں رابطوں کی تردید نہیں کی۔
انھوں نے کہا کہ ’سیاسی لوگوں سے رابطے ہوتے رہتے ہیں، ہونے بھی چاہیے لیکن یہ ساری باتیں اور سارے مسائل ایک ہی راستے کی طرف جاتے ہیں اور وہ ہے انتخابات۔ یہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ یہ لوگ انتخابات کی تاریخ دے دیں، سب کچھ درست ہو جائے گا۔‘
عمران خان کی طرف سے فوج کے سربراہ کی مدت میں اضافے کی بالواسطہ تجویز کو ’مؤقف میں لچک دکھانے‘ سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ’لچک‘ بھی ان ہی رابطوں کا نتیجہ ہے؟
مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیراعظم کے سابق معاونِ خصوصی بیرسٹر ظفر اللہ خان اس امکان کو درست نہیں سمجھتے۔
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مختلف سطح پر مذاکرات کا مجھے کافی تجربہ ہے۔ بات چیت میں ہمارے درمیان اتفاق ہو جاتا تھا لیکن اتفاق کے بعد یہ لوگ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ یہ بات ہم خان صاحب سے نہیں کہہ سکتے۔۔۔‘
اس تجربے کی بنیاد پر اُن کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں صدر عارف علوی جو کوشش کر رہے ہیں، اس کے زیادہ نتیجہ خیز ہونے کا امکان کم ہے۔ حامد میر بھی اس تاثر کی تائید کرتے ہیں۔
حامد میر کے مطابق ’یہ ملاقاتیں مثبت نتائج پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکیں گی، اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔‘
صحافی عظیم چودھری کا کہنا ہے کہ ’صدر مملکت کی طرف سے مفاہمت کی کوشش چند غیر معمولی واقعات کے بعد سامنے آئی ہے۔ ان میں سے ایک فارن یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہے اور دوسرا شہباز گل کی گفتگو جس کے بارے میں تاثر ہے کہ اس کے ذریعے فوج میں بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد عمران خان کا وہ بیان آ گیا جس میں انھوں نے فوجی قیادت کو محب وطن اور غیر محب وطن کے زمروں میں تقسیم کیا۔‘
’توہین عدالت اور توہین الیکشن کمیشن کے مقدمات پر بھی بہت سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسے مقدمات ہیں جن کے نتائج نہایت سنگین اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میرے خیال میں بظاہر یہ کوشش بے تحاشہ مشکلات میں پھنسے ہوئے عمران خان کو ریسکیو کرنے کی ہے۔ ایسی کوششوں کی کامیابی کے لیے خواہش کے علاوہ کچھ دیگر ٹھوس سہاروں کی ضرورت بھی ہوتی ہے.‘
یہ ٹھوس سہارے کیا ہوتے ہیں، پاکستانی سیاست میں کبھی ان کا ذکر علامتی انداز میں کیا جاتا ہے اور کبھی بے تکلفی کے ساتھ ’اسٹیبلشمنٹ‘ کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔
یہ کچھ اسی قسم کی صورتحال ہے جس سے وزیر اعظم کی حیثیت سے نواز شریف بھی دوچار ہوئے تھے۔
سنہ 2014 میں جب پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ڈی چوک پر دھرنا دیا تو اس موقع پر بیچ بچاؤ کے لیے بعض افراد کی جانب سے صدر ممنون حسین کو ایک تجویز پیش کی گئی۔
ان کے ایک دوست نے بالکل ان ہی الفاظ میں صدر سے کہا: ’جناب صدر! اس ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے آپ ہی کچھ کریں۔‘
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں صدر مملکت کے معاون کی حیثیت سے ایوان صدر میں ہوتا تھا، اس لیے ان میں سے بیشتر واقعات کا میں عینی شاہد ہوں۔
صدر مملکت نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ ’میں اس تجویز پر اس کے باوجود غور کروں گا کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں لیکن اگر فریقین کی خواہش یا کسی اور پیشرفت کے نتیجے میں بیچ بچاؤ ہو جائے تو اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔‘
اس مکالمے کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بعض قوتوں کی مداخلت کے نتیجے میں حکومت اور دھرنا دینے والی جماعتوں کے درمیان رابطہ ہو گیا۔ یہ کم و بیش اُن ہی دنوں کی بات ہے جب عمران خان نے انگلی لہرا کر کہا تھا کہ ’ایمپائر کی اُنگلی‘ اٹھنے والی ہے۔ ان رابطوں کے بعد صدر مملکت کی طرف سے کسی سرگرمی کی کوئی ضرورت باقی نہ رہی۔
صدر ممنون حسین کے سامنے دوسری بار اسی قسم کی تجویز اس وقت سامنے آئی جب پاناما پیپرز کا انکشاف ہوا اور عمران خان نے اسلام آباد کے گھیراؤ کی دھمکی دی۔ اس موقع پر صدر ممنون حسین کو بیچ بچاؤ کے سلسلے میں پرانی تجویز کی یاد دہانی کرائی گئی اور مشورہ دیا گیا کہ اب اگر وہ متحرک ہو سکیں تو یہ وقت مناسب ہو گا۔
اس موقع پر انھیں مشورہ دیا گیا تھا: ’ریاست کے آئینی سربراہ اور ایک بزرگ کی حیثیت سے متحارب فریقین کو اپنے ہاں مدعو کر کے انھیں بات چیت پر آمادہ کریں۔‘
یہ مشورہ اُن کے ذاتی دوستوں کی ایک محفل میں سامنے آیا۔ اس نشست میں مشاہد اللہ خان مرحوم کے علاوہ مسلم لیگ نون کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن ناصر الدین محمود اور چند دیگر احباب بھی موجود تھے۔
صدر نے اس مشورے سے اتفاق کیا تاہم ان کے پیش نظر دو باتیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ’اس طرح کی پیشقدمی آئسولیشن (الگ تھلگ) میں نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے ریاست کے طاقتور سٹیک ہولڈرز کا اعتماد، رضا مندی یا کم از کم ایسی یقین دہانی ضروری ہو گی کہ ان کی طرف سے اس کوشش میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔‘
کیا ریاست کا آئینی سربراہ کسی سیاسی بحران کے حل کے سلسلے میں کوئی آئینی اور قانونی اختیار رکھتا ہے؟
اس ضمن میں ان کا ذہن واضح تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسی کوئی آئینی گنجائش موجود نہیں، سوائے ایک گنجائش کے۔ اُن کا خیال تھا کہ ’ایسی کوئی کوشش اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے، اگر ملک کا صدر کوئی ایسی شخصیت ہو جس کے سیاسی مفادات نہ ہوں اور تمام قسم کے سیاسی و قومی حلقوں میں ان کا احترام کیا جاتا ہو اور کوئی ان کی بات نہ ٹال سکتا ہو۔‘
اس بات چیت کی روشنی میں انھوں نے دو کام کیے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ آئین اس معاملے میں واضح ہے، انھوں نے بعض آئینی ماہرین سے مشورہ کیا اور ایوان صدر کے شعبہ قانون کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں آئین کی روشنی میں کوئی ایسی سرگرمی شروع کرنے کے آئینی جواز کا جائزہ لے۔
ان کی دوسری کوشش کا تعلق ان کی اپنی ذات سے تھا جو انھوں نے ذرائع ابلاغ سے پوشیدہ رہ کر کی تاکہ تبصروں اور قیاس آرائیوں سے بچا جا سکے۔ ریاست کے سربراہ اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے انھوں نے مختلف حلقوں سے رابطے کی کوشش کی تاکہ کسی نہ کسی طرح کوئی آغاز ہو سکے۔
ان سرگرمیوں کے نتیجے میں وہ بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ ’نواز شریف کو پچھاڑنے کا فیصلہ حتمی ہے اور اس سلسلے میں بعض طاقتور سٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے ہے۔‘ یوں انھوں نے مفاہمت کی خاطر جتنی بھی کوششیں کیں اور مختلف سطحوں پرجو روابط کیے وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔
عظیم چودھری کا خیال ہے کہ صدر عارف علوی کے متحرک ہونے کے پیچھے بھی کچھ اسی قسم کا احساس کارفرما ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بیچ بچاؤ کرانے والی شخصیت کم و بیش نوابزادہ نصراللہ خان جیسی ہونی چاہیے یعنی اختلاف رکھنے والے فریقین کو ایک میز پر بٹھانے کی صلاحیت، دوم، بزرگی اور تیسرے سیاسی وابستگی کے باوجود اپنی جماعت کے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر کوئی مؤقف اختیار کرنے کی ہمت۔
اس معاملے میں جہاں تک صدر ممنون حسین کا تعلق ہے جب وہ صدر منتخب ہوئے، اس وقت وہ اپنی جماعت کے مرکزی سینیئر نائب صدر تھے۔ انتخاب کے بعد انھوں نے خود کو سیاسی ذمے داریوں سے علیحدہ کر لیا لیکن جب جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران انھیں محسوس ہوا کہ یہ معاملہ بالکل یکطرفہ ہے تو اس موقع پر انھوں نے ایک سخت بیان دیا۔
اسلام آباد کے پاسپورٹ آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’صرف ایک ہی شخص یعنی وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو ٹارگٹ کرنے کی روش ترک کر دی جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے اثرات کو آئندہ کئی دہائیوں تک سمیٹنا ممکن نہ ہو گا۔‘
اس کے علاوہ ان کی کوئی سیاسی سرگرمی باقی رہ گئی تو وہ اُن کی تقریریں تھیں۔ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری فورمز پر اپنی سینکڑوں تقریروں میں انھوں نے کھل کر مختلف اداروں اور ان کے ذمے داروں پر زور دیا کہ وہ آئین کی پاسداری کریں اور جمہوریت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اپنے اس مؤقف کا اعادہ انھوں نے 23 مارچ کی پریڈ سمیت مختلف قومی تہواروں کے مواقع پر بھی بار بار کیا۔
اس کے علاوہ انھوں نے مسلم لیگ ن کی سب سے بڑی حریف جماعت کے ساتھ بھی تعاون سے کبھی گریز نہ کیا۔ عمران خان جب وزیر اعظم منتخب ہو گئے تو انھوں نے صرف ان ہی سے حلف نہیں لیا بلکہ ان کی کابینہ سے بھی حلف لینے کے علاوہ ڈاکٹر عارف علوی کے حلف میں بھی شرکت کی۔
اس معاملے میں صدر ممنون حسین اور صدر عارف علوی کے طرز عمل میں ایک واضح فرق ہے۔
صدر علوی نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ سے حلف لینے سے گریز کیا۔ پنجاب میں گورنر کے تقرر میں بھی مبینہ طور پر رکاوٹ ڈالی۔ بعد میں جب چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو ایوان صدر میں ان کا حلف لینے پر بھی تیار ہو گئے جو تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
تاہم مصالحتی سرگرمی شروع کرنے کے بعد صدر علوی کے رویے میں واضح تبدیلی دکھائی دی۔
عمران خان نے فیصل آباد کے جلسے میں جرنیلوں کو محب وطن اور غیر محب وطن کے خانوں میں تقسیم کیا تو اس موقع پر وہ اپنے ماضی کے طرز عمل سے بالکل مختلف دکھائی دیے۔ پشاور میں اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’فوج محب وطن ہے۔ جان دیتی ہے۔ آرمی چیف سمیت فوج کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ موجود حکومت سمیت سب ادارے محب وطن ہیں۔‘
اسی پس منظر میں بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ حب الوطنی کے تناظر میں دیے گئے بیان کی وضاحت عمران خان خود کریں۔
عظیم چودھری کہتے ہیں کہ ’اپنی صدارت کے اب تک گزرنے والے دور میں یہ پہلی بار تھا جب عارف علوی نے اتنا آزادانہ اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کیا۔ صدر صاحب کے بدلے ہوئے اس انداز کو مختلف فریقین کے درمیان مفاہمت کے لیے قابل قبول بنانے کی شعوری کوشش بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
صدر علوی نے پشاور میں صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں ایک ایسی بات بھی کہی، جس سے عظیم چودھری کے تجزیے میں وزن پیدا ہو جاتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’پس پردہ مفاہمت کے لیے کوشش کر رہا ہوں اور کوشش کر رہا ہوں کہ سٹیک ہولڈرز کے درمیان غلط فہمیاں دور ہو جائیں۔‘
غلط فہمیوں کے خاتمے کا یہ سفر کہاں تک پہنچا ہے اور اس کی ابتدا کیسے ہوئی، ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی کچھ تفصیلات سامنے آ سکیں تاہم اب تک دستیاب اطلاعات کے مطابق ابھی تک اس مشن میں کچھ زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی۔
مختلف سطحوں پر جو نامہ و پیام رہا ہے، وہ بھی سر دست بے نتیجہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’لاوا پک چکا ہے اور وہ ستمبر میں عوام کو سڑکوں پر نکلنے کے لیے کہنے والے ہیں۔‘
اگر معاملات اس انتہا پر پہنچ چکے تھے تو پھر کیا وجہ تھی کہ سڑکوں پر نکلنے کی بات کرنے سے صرف ایک روز قبل عمرن خان نے آرمی چیف کو توسیع دینے کا بالواسطہ اشارہ دیا۔
عظیم چودھری کے مطابق اس کا سبب ان کی معروف ’سلپ آف ٹنگ‘ بھی ہو سکتی ہے اور ایک آخری کوشش بھی۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ صدر علوی کے مشن کا کیا ہوا؟ صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ ’کچھ روز قبل عمران خان سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ موجودہ سیاسی بحران ہی گفتگو کا موضوع تھا۔ اس موقع پر میں نے تجویز پیش کی کہ ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے اگر صدر عارف علوی متحرک ہو سکیں تو ممکن ہے کہ اس کے کچھ سود مند نتائج نکل آئیں۔ عمران خان نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ صدر علوی سے واٹس ایپ پر ان کا رابطہ ہے۔ وہ انھیں اس جانب متوجہ کریں گے۔ عمران خان نے ایسا کیا یا نہیں، میں نہیں جانتا.‘
صدر عارف علوی کی مفاہمتی کوششوں پر مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ ’یہ کام وہ پورے خلوص کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں لیکن میرے خیال میں ان کے ذہن میں اس کام کا کوئی واضح نقشہ نہیں۔‘
(بشکریہ: آوازہ)