سرزمین کبیروالا ہمیشہ ادبی لحاظ سے زرخیز رہی ہے۔ یہاں پر شعر و ادب کے بلند مرتبہ سخنوروں نے جنم لیا یا اپنی روشن فکر کے چراغ طویل عرصے تک جلائے، جس کی وجہ سے آج بھی یہاں سے بہترین شاعری کے ستارے بام ادب پر جگمگاتے ہیں۔ یہاں شعر و سخن کی ایسی آبیاری ہوئی کہ آج بھی یہاں سخن کے گلاب مہکتے ہیں۔ کبیروالا کی زمین پر جب رفتگاں کا ذکر آتا ہے تو ڈاکٹر وفا حجازی، ڈاکٹر بیدل حیدری، خادم رزمی، نور اسماعیل نور، اور نثار ساجد جیسے بلند پایہ شعرا کا تذکرہ لازمی ہوتا ہے۔ آج انہی رفتگاں میں سے ایک بڑے شاعر، ڈاکٹر وفا حجازی کا یوم وفات ہے۔ وہ 31 دسمبر 1984 کو بلڈ یوریا کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے ۔
وفا حجازی کی پیدائش متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں ایک عالم و فاضل شخصیت مولوی فضل حسین کے گھر ہوئی۔ ان کا اصل نام عطاء الرحمن تھا، مگر وہ وفا حجازی کے نام سے زیادہ مشہور ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں حاصل کی اور طب کے ساتھ شاعری کا آغاز بھی امرتسر سے ہی کیا۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق سدوزئی قبیلے سے تھا، جب کہ ان کی والدہ کا تعلق عرب سے تھا، اور شاہ سعود کا خاندان ان کا ننھیال تھا۔ اپنی والدہ کی وجہ سے وہ خود کو حجازی لکھتے تھے اور اپنے تخلص کے ساتھ وفا لگاتے تھے۔
وفا حجازی کہا کرتے تھے، "میں نے اور سیف الدین سیف نے ایک ہی تھڑے سے شاعری کا آغاز کیا۔” وفا حجازی نے ایک زمانے میں احسان دانش سے اصلاح لی مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا اور اپنے طور پر شعر کہنا جاری رکھا۔ 1945 میں انجمن فروغِ اردو امرتسر کے جنرل سیکرٹری تھے اور انہوں نے اسی دور میں امرتسر کے ایک مشاعرے میں ساغر صدیقی کو پہلی بار مشاعرہ پڑھنے کا موقع دیا۔
1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تو کچھ عرصہ جہلم میں مقیم رہے، مگر بعد میں کبیروالا آگئے اور یہیں مستقل قیام پذیر ہوئے اور وفات تک کبیروالا میں ہی رہے۔ اپنے سرخ و سفید رنگت کی وجہ سے اہل کبیروالا میں "ڈاکٹر بگا” کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا مطب کبیروالا کے شارٹ بازار میں تھا، جہاں وہ ایک ماہر طبیب کے طور پر اپنی شناخت رکھتے تھے۔
طب اور شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھے۔ انہوں نے اپنے تجربات سے کئی ادویات تیار کیں، جن میں کلسینا اور باردی کافی مشہور ہوئیں۔ انہوں نے ان ادویات کو "قوت فارمیسی کبیروالا” کے نام سے رجسٹرڈ بھی کروایا تھا۔
وفا حجازی دنیائے شعر کی ایک خوبصورت اور توانا آواز تھے۔ معروف شاعر سلیم کوثر نے کبیروالا میں ان کے ساتھ کافی وقت گزارا۔ ان کا کہنا ہے کہ "وفا حجازی کا کلام ‘ادب برائے زندگی’ کا عظیم مقصد لیے ذہن در ذہن سفر کررہا ہے۔ ان کے ہاں زندگی کے بھرپور تجربات، مسائل پر گہری نظر اور حالات پر گرفت موجود ہے۔ ان کے کلام میں تشبیہات و استعارے، الفاظ کے دھنک رنگ، مضامین کی وسعت، مشاہدے کی جھلک، مطالعے کی چمک، ماحول کی کسک بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وفا حجازی ایک بڑا شاعر اور عظیم انسان ہے۔”
وفا حجازی اپنی عام زندگی میں زندہ دل اور شگفتہ مزاج انسان تھے۔ دوستوں کی محفل میں قہقہے بکھیرتے اور ان کی لطیفہ گوئی اور جملے بازی محفلوں کو خوشیوں کا گہوارا بنا دیتی۔ وہ بلند آہنگ قہقہوں کے قائل تھے، اور جب ہنستے تو پوری محفل کا رنگ بدل جاتا۔ چاہے حالات جیسے بھی ہوں، وہ کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے ۔
وفا حجازی کے قریبی دوستوں میں ڈاکٹر غلام رسول گل بھی شامل تھے، جو مقبل تخلص کے ساتھ شاعری کرتے تھے۔ انہوں نے کبیروالا میں پہلی ادبی تنظیم "ایوان ادب” کی بنیاد رکھی اور خود اس کے پہلے صدر بنے۔
ڈاکٹر وفا حجازی کا مشاعرہ پڑھنے کا بھی اپنا منفرد انداز تھا۔ وہ شعر کو گھن گھرج کے بجائے لوچ دار انداز سے پڑھتے تھے، جو سامعین کو بہت بھاتا تھا۔ڈاکٹر وفا حجازی سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے والے اور تصنع سے دور انسان تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر ضیغم شمیروی لکھتے ہیں کہ "وفا ایک مضبوط دل گردے کا آدمی تھا۔ دل کو تو اس نے آخر دم تک زندہ رکھا مگر گردے ساتھ چھوڑ گئے۔ 1984 کے اوائل میں بلڈ یوریا کی بیماری نے اسے چاٹنا شروع کیا۔ اس کے چہرے کی زردی دن بدن بڑھتی رہی۔ یہ سونا مٹی ہوتا رہا مگر اس کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا۔
ان کی نماز جنازہ کبیروالا میں ادا کی گئی اور مقامی قبرستان میں تدفین کی گئی۔ ان کی وفات کے بعد 1990 میں ان کا مجموعہ کلام "میلے جسموں کی چاندنی” شائع ہوا، اور ان کے نواسے رفعت بیگ نے 2018 میں اس کا دوسرا ایڈیشن "کلیات وفا” شائع کیا۔
ڈاکٹر وفا حجازی کی شاعری میں سے چند منتخب اشعار:
خطرے میں خود پہرے دار کی جان نہ ہو
گھر ہو لیکن اتنا عالی شان نہ ہو
اور تو سارے دکھ مجھ کو منظور وفا
مولا میرا بیٹا نافرمان نہ ہو
۔۔۔۔۔
قدغن اگر لگی مری رودادِ قتل پر
نیزے پہ بولتا ہوا سر چھوڑ جاؤں گا
اتنا بھی خوش نہ ہو تو مرے ہاتھ کاٹ کر
میں شہرت کمال ہنر چھوڑ جاؤں گا
۔۔۔۔۔
رفتہ رفتہ میرے رخ سے زردی بھی اڑ جائے گی
جتنی دیر میں تم آؤ گے، سونا مٹی ہو لے گا