پشاور : پشتون تحفظ موومنٹ کی حامی سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے والد پروفیسر محمد اسماعیل خان کو آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عبوری ضمانت منسوخ ہونے پر حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ گلالئی اسماعیل کی والدہ کی عبوری ضمانت کنفرم کر دی ہے۔ محمد اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے وکیل فضل الہی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ آج انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اسماعیل خان کی عبوری ضمانت منسوح کرنے کا حکم دیا جبکہ اسماعیل خان کی اہلیہ کی عبوری ضمانت کنفرم کر دی ہے۔
فضل الٰہی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انھوں نے پیر کو عدالت میں اپنی بحث مکمل کر لی تھی جبکہ آج سرکاری وکیل نے اپنے دلائل مکمل کیے ہیں۔ عبوری ضمانت گزشتہ ہفتے کرائی گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ اس مقدمے میں اس سے پہلے ان دونوں کو بری کر دیا گیا تھا اور عدالت نے اس وقت سرکاری وکیل سے کہا تھا کہ اگر اس بارے میں سرکار کو مزید شواہد ملتے ہیں تو دوبارہ عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔سرکار کی جانب سے مزید شواہد اور دیگر واقعات میں ان کے ملوث ہونے کے الزامات کے بعد عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔ فضل الٰہی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ توقع ہے کہ پولیس پروفیسر اسماعیل کو بدھ کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرے گی اور ریمانڈ کی استدعا کرے گی جبکہ ان کی کوشش ہوگی کو پروفیسر اسماعیل کو جیل بھیج دیا جائے جہاں وہ ان کی ضمانت کے لیے پھر سے عدالت سے رجوع کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے خلاف درج مقدمات کے خلاف انھوں نے پشاور ہائی کورٹ میں بھی پیٹیشن دائر کر رکھی ہے۔
گلالئی اسماعیل نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’آج میرے والد کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آج والدین کی عبوری ضمانت کنفرم ہونی تھی، والدہ کی ضمانت کنفرم ہو گئی ہے۔‘
کیس میں اب تک کیا ہوا ہے؟
گزشتہ سال اکتوبر میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گلالئی اسماعیل کے والدین پر فرد جرم عائد کی تھی۔ اس مقدمے میں سال 2013 اور سال 2015 میں تشدد کے واقعات میں معاونت کی دفعات درج کی گئی تھیں جن میں انسداد دہشت گردی کے قانون 11 این، جو دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے بارے میں ہے، جبکہ 120 بی اور 124، جو ریاست کے خلاف بغاوت کے متعلق ہیں، لگائی گئی ہیں۔
وکلا کے مطابق ان پر پشاور میں 2013 میں چرچ پر حملے اور 2015 میں حیات آباد میں مسجد پر حملے میں حملہ آوروں کی معاونت کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ فضل الٰہی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ گزشتہ دنوں پروفیسر اسماعیل خان اور ان کی اہلیہ میں کورونا وائرس مثبت آیا تھا جس وجہ سے انھیں عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن اب جیسے ہی ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا انھیں عدالت میں طلب کیا گیا۔
پروفیسر اسماعیل اور ان کی اہلیہ کے وکیل شہاب خٹک ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گلالئی اسماعیل کے والدین نے فرد جرم سے انکار کیا تھا اور اب یہ مقدمہ آگے چلے گا۔شہاب خٹک ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ‘یہ ایک پرانا مقدمہ ہے جسے عدالت نے ایک مرتبہ خارج کر دیا تھا اور انھیں بری کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اب ایک مرتبہ پھر سی ٹی ڈی نے مزید الزامات کے تحت چالان پیش کیا ہے۔ پشاور میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق یہ مقدمہ جولائی سال 2018 میں درج کیا گیا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ اس بارے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے اسلام آباد کی جانب سے مراسلہ موصول ہوا تھا۔ اگرچہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے قانون کی دفعات درج ہیں لیکن وکلا کے مطابق بعد میں اس میں دیگر دفعات بھی شامل کر دی گئیں۔ بنیادی طور پر یہ مقدمہ ٹیرر فنانسگ یا دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے مالی معاونت کا تھا۔ اس ایف آئی آر میں الزام تھا کہ گلالئی اسماعیل ’اویئر گرلز‘ اور ’سٹینڈ فار پیس‘ نامی غیر سرکاری تنظیموں کی آڑ میں ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کے لیے کام کرتی ہیں اور ان کے بینک اکاؤنٹس میں رقوم بیرون ممالک سے آتی ہیں اور وہ فلاحی کاموں کی بجائے ملک دشمن عناصر اور دیگر تنظیوں کو فراہم کر دی جاتی ہیں۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ