ہماری نسل دوسری جنگ عظیم کے بعد پروان چڑھی ۔۔ ہمارے محبوب ہیرو جمال عبدال ناصر اور مصطفی کمال اتاترک جیسے لیڈر تھے جو فوجی تھے مگر جنہوں نے سامراج سے ٹکر بھی لی تھی اور اپنے ملکوں کی تعمیر بھی کی تھی ۔۔اب جمہوریت کے نام پر ۔۔۔۔ان لیڈروں کو بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں کچھ نادان لوگ ۔۔پاکستانی فوج اس سے کافی مختلف تھی۔۔۔یہ حقیقت ہے۔۔اس نے سامراج سے ٹکربے شک نہیں لی ۔۔لیکن جنرل ایوب خان کے لیئے، جن کی مخالفت میں ہم دوسرے طلبا کے ساتھ پیش پیش تھے۔۔۔پھر بھی یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ان کے دور میں کچھ بھی اچھا نہیں ہوا ۔۔سب سے بڑھ کر تو عایلی قوانین ہیں جن کی حفاظت تمام خواتین تنظیمیں آج تک کر رہی ہیں۔۔دراصل اتا ترک اس وقت پاک افواج کے بھی ہیرو تھے ۔۔۔اس کے علاوہ پاکستان میں صنعتی بیس انہوں نے ڈالا ۔۔لیکن اس کے مقابلے میں انہوں نے پاکستان کےابھرتے ہوئے جرنلزم کو ختم کر دیا ۔ پاکستان ٹائمز ، لیل و نہار اور امروز جیسے اخباروں اور رسائل کو بند کر دیا ۔بلا امتیاز ہرسیاست داں کو معطوب کیا ۔ یونیورسٹی لا جیسے کالے قوانین بنائے۔۔لیکن ان کے ہی ایک محبوب منسٹر ہمارے بھٹو صاحب تھے۔۔انڈیا سے جنگ بھٹو صاحب ہی کے ایما پر ہوئی تھی۔۔۔وہ جنگ زیادہ عرصے نہیں چل سکتی تھی تب جنرل ایوب خان نے شاستری جی کے ساتھ معاہدہ تاشقند کر لیا تو بھٹو صاحب نے ظاہر کیا کہ وہ بہت ناراض ہیں۔۔۔ جنگی نعرہ بازی میں پنجاب کے عوام تو توقع کررہے تھے کہ ہماری فوجوں نے دلی اب فتح کیا کہ تب ۔۔۔تو بھٹو پنجاب میں مقبول ہو گئے اور پھر انہوں نے پاکستان کو پیپلز پارٹی دی ۔۔سوشلزم ہماری معیشت، اسلام ہمارا دین، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سر چشمہ عوام ۔۔۔۔۔۔یہ ایک بہت بڑا تحفہ تھا ۔۔لیکن اسے عوام تک پہنچانے کے لیئے انہوں نےکس قسم کی ترکیبیں اختیارکیں
یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔۔
آہ افسوس میں جہاں دیدہ ہوں
فیس بک کمینٹ