1995گزر رہا تھا اور میں اس شخص کی پیش گوئی کے خدشات میں مبتلا تھا جس نے مجھے علم الاعداد کی رو سے اس سال کو کسی بڑے حادثے کا سال قرار دیا تھا ۔ اس کے حساب کے مطابق 1947 میں پاکستان قائم ہوا ۔47 کےہندسوں کو اگر ایک دوسرے میں جمع کیا جائے تو 11 بنتا ہے 11 کو 47 میں جمع کرنے سے 58 بنتا ہے۔ 1958 میں ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ اب 58 کے ہندسوں کو آپس میں جمع کریں تو حاصل جمع 13 آ تا ہے ۔13 کو 58 میں جمع کریں تو 71 بنتا ہے۔ اور 1971 میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ اسی طرح 7 اور 1 کو جمع کرنے سے 8 جواب آ تا ہے اور جب 8 کو 71 میں جمع کیا جائے تو 79 بنتا ہے اور 1979 میں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اب اس ماہر علم الاعداد نے یہ کہہ کر ڈرایا ہوا تھا کہ 79 کے 7 اور 9 کو جمع کرنے سے 16 بنتا ہے اور 16 کو جب 79 میں جمع کیا جائے گا تو جواب 95 آ تا ہے لہٰذ ہ 1995 میں بھی کسی بڑے حادثے کا امکان ہے۔۔ ۔ خیر ہم چند ایک دوست متوقع حادثات کے حوالے سے گاہے بگاہے بات چیت بھی کرتے رہتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت بے نظیر کی وزارت عظمی اور فاروق لغاری کی صدارت کے زیر سایہ نواز شریف کی اپوزیشن کے ساتھ نبرد آ زما تھی۔ پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما اور ممتاز ادیب فخر زمان اکادمی ادبیات کے چیرمین 1994 کی کامیاب کل پاکستان اہل قلم کانفرنس کے انعقاد کے بعد انٹر نیشنل رائٹرز کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اور پھر یہ کانفرنس نہایت عمدہ انتظامات کے ساتھ وسیع پیمانے پر منعقد ہوئی ۔ اس کانفرنس میں ملتان سے سینئر ادبا کے علاوہ مجھ سمیت شاکر حسین شاکر ر ضی الدین رضی۔اسلام تبسم اور سبطین رضا لودھی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں ہونے والے چند ایک دلچسپ واقعات اب تک میری یاداشتوں میں محفوظ ہیں۔
میں اپنی چھوٹی ہمشیرہ کی شادی اور شاکر اپنی ذ اتی مصروفیات کی بنا پر کانفرنس کے پہلے دن شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ سو پروگرام یہ بنا کہ باقی احباب پہلےچلے جائیں گے جبکہ میں اور شاکر بعد میں پہنچیں گے۔ شاکر نے عوام ایکسپریس میں ملتان سے راولپنڈی کے لئے دو سیٹیں بک کروالیں۔ عوام ایکسپریس رات بارہ بجے ملتان سےروانہ ہوکر تقریباً 10 بجے دن راولپنڈی پہنچ جاتی ہے۔ شاکر نے ملتان جبکہ میں نے خانیوال جنکشن سے گاڑی میں سوار ہونا تھا۔لیکن ہوا یہ کہ شاکر وقت مقررہ سے تقریباً دو چار منٹ لیٹ شادی کا ایک فنکشن بھگتاکر ایک دوست کی کار میں جب ملتان اسٹیشن پر پہنچا تو عوام ایکسپریس اس کی آنکھوں کے سامنے اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔ ایک لمحے کے لیے وہ پریشان ہوا لیکن فوری طور پر اس نے دوست سے استدعا کی کہ وہ اپنی کار پر اسے خانیوال جنکشن پہنچائے ۔اس نے کسی لیت ولعل سے کام لیے بغیر گاڑی کا رخ خانیوال جنکشن کی طرف موڑ دیا۔ ادھر میں گاڑی آ نے سے پہلے خانیوال اسٹیشن پر پہنچ چکاتھا۔ ان دنوں موبائل فونز نہ ہونے کی وجہ سے شاکر کے ساتھ میرے رابطے کی بھی کوئی صورت نہیں تھی۔ جونہی گاڑی خانیوال جنکشن پر پہنچی میں نے شاکر کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ میں نے پہلے ڈبے سے آخری ڈبے تک اس کو پکارنا شروع کیا لیکن شاکر گاڑی میں ہوتا تو مجھے جواب دیتا ۔ میں مایوس ہوچکا تھا۔ اور کافی حد تک اپنے اسلام آ باد نہ جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ گاڑی کا سٹاپ یہاں 20 منٹ کا تھا۔ 20 منٹ کے بعد گارڈ نے روانگی کی وسل دی اور گاڑی نےآ ہستہ آ ہستہ پلیٹ فارم پر رینگنا شروع کردیا۔ ابھی میں لوٹنے ہی والا تھا کہ میں نے دور سے شاکر کو پلیٹ فارم پر دوڑتے دیکھا۔ بس پھر میں اور وہ دونوں دوڑتے دوڑتے ایک ڈبے میں سوار ہوگئے۔ تھوڑے سے سانس بحال ہوئے تو ہم نے اپنی سیٹیں تلاش کرناشروع کردیں۔ سیٹیں ملیں تو پتہ چلا ان پر قبضہ ہوچکا ہے۔ دور دور تک کنڈکٹر گارڈ کا نام ونشان نہیں تھا جسے ہم اپنی مدد کے لیے بلاتے ۔ دسمبر کی سرد رات میں آ خر ہم نے گاڑی کے دروازے کے نزدیک فرش پر بیٹھنے کے لیے اپنی جگہ بنائی۔ یقیناً یہ ایک برا آ غاز تھا
فیس بک کمینٹ