میں نہ تو دو سال کی قید کی سزا بھگتا سکتا ہوں اور نہ ہی 5 لاکھ جرمانہ ادا کر سکتا ہوں۔عام آدمی کی قید اور اشرافیہ کے فرد کی قید میں بہت فرق ہے ۔عام آدمی کے ہر عمل پر جیل انتظامیہ کا پہرہ ہوتا ہے عام قیدی کا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا کھانا پینا اور بات کرنا بھی جیل انتظامیہ کے موڈ پر ہوتا ہے لیکن اشرافیہ کا قیدی جیل میں تھری سٹار ہوٹل کی سہولیات انجوائے کرتا ہے۔ ویسے تو عام زندگی میں بھی عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے لیکن جیل میں اذیت ناک ہوتی ہے۔
تقریباً 30 سال قبل نیو سنٹرل جیل ملتان تین چار بار بطور رپورٹر جانے کا اتفاق ہوا۔جیل میں ہنگامے کے بعد پنجاب حکومت کے حکم پر ڈپٹی سیکرٹری قانون تحقیقات کے سلسلے میں سنٹرل جیل جاتے تو اخبار نویس بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ان دنوں عبدالستار عاجز سپرٹنڈنٹ جیل تھے ۔جیل میں ایک قیدی دھوتی پہنے بمشکل چل رہا تھا۔اس سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس نے لنگر کی دال پر اعتراض کیا جس پر سپرٹنڈنٹ جیل نے اسے چھتر لگوائے ہیں۔اس قیدی کی حالت الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن ٹیوب ویل کی چھت پر پڑا چھتر دیکھ کر تو ہوش ہی اڑ گئے۔یہ ٹیوب ویل کا پٹہ تھا۔اور قیدیوں سے پتہ چلا کہ کسی بھی اعتراض پر 4 سے 10 چھتر مارے جاتے ہیں ۔ رہا پانچ لاکھ جرمانہ تو 30 سال کی اخبارات کی ملازمت کے بعد بھی پانچ لاکھ اکٹھے نہیں ملے بلکہ بقایاجات لینے کیلئے آئی ٹی این ای میں کیس دائر کرنا پڑا اور غریب اخبار مالکان کو قسطوں میں ادائیگی کی سہولت فراہم کی گئی۔
ان دنوں سٹینڈنگ کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث ہے کہ فوج کے خلاف منہ کھولنے والے کو دو سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا دی جائے تو سوچا کہ قانون بن جانے سے پہلے دل کی بات کہہ لوں ۔ پاک فوج ہماری ملکی سلامتی کی ضامن ہے اس کا وقار پوری قوم کو عزیز ہے لیکن کسی بھی معاملے میں زبان بندی ظالمانہ اقڈام ہے اظہار رائے کا حق ہونا چاہئے اس سے کتھارسس ہوتا رہتا ہے اظہار رائے پر پابندی اور زبان بندی باغیانہ خیالات کو جنم دیتی ہیےالبتہ اداروں پر تنقید بند کرانے کیلئے قانون سازی کی اشد ضرورت ہے لیکن اداروں کے ارکان کے عمل پر تنقید ہر شہری کا حق ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں پر بھی تنقید کا عوام کو حق حاصل ہے۔لیکن بطور ادارہ عدلیہ پر تنقید بند ہونی چاہئے۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ فیشن زور پکڑ رہا ہیے کہ خو دکو دانشور اور ترقی پسند ثابت کرنے کیلئے فوج اور عدلیہ پر بلا جواز تنقید کی جائے۔لیکن وردی والے کا انفرادی عمل بولنے اور خاموشی توڑنے پر مجبور بھی کر دیتا ہے ۔میرے ایک دوست ڈائریکٹر ہیلتھ ملتان کو صرف اس لئے نیب کے حوالے کر دیا گیا کہ انہوں نے مشرف دور میں ایک فوجی آفیسر کی رورل ہیلتھ سنٹر سے غیر حاضری پر کاروائی کی اور ڈویثرنل اجلاس میں یہ کہنے کی جرات کی کہ سویلین حکومت میں ارکان اسمبلی کلرک چوکیدار لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور ڈاکٹرز کے تبادلہ کیلئے سفارش کرتے ہیں لیکن فوجی دور حکومت میں تو افسران صرف ایل ایچ وی کے تبادلوں کی سفارشیں اتنی بار کرتے ہیں کہ جینا مشکل کر دیتے ہیں۔بس پھر کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ایک سال سے زائد عرصہ نیب کی حوالات اور کوٹ لکھپت جیل لاہور کی زینت بنے رہے ۔اس لیئے ایسے باوردی شخص کے خلاف تو اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہئے۔لیکن ملک وقوم کی محافظ اور سرحدوں کے رکھوالوں کے ادارے پر تنقید نا مناسب اور ملک دشمن بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔قانون سازی کی بجائے قوم کو ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔کہ عدلیہ اور فوج ایسے ادارے کو احترام دیا جائے۔ اور سیاسی وابستگی کی بنا پر تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے اداروں کو ان کی حیثیت کے مطابق رتبہ دیا جائے اور سیاسی وابستگی رکھنے والے اپنے میدان میں کھل کھیلیں جب پہلے ضابطہ فوجداری میں قانون موجود ہے تو مزید قانون سازی سے پرہیز ہی بہتر رہے گا۔ورنہ جس طرح آج تک آئی ایس آئی میں سیاسی ونگ بنانےکی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو شہید پر ڈالی جاتی ہے۔ایسی ہی صورت حال عمران خان اپنے لیے پیدا نہ کریں۔