اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کرپشن، لوٹ مار، بے روزگاری، مہنگائی، پولیس گردی اور انتقامی کارروائیاں تو قابلِ برداشت ہیں۔ بچوں کی ضروریات پوری نہ کرنے والے والدین خودکشی کر لیں، روزانہ 10 سے 12 افراد حالات سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کر لیں، ہسپتالوں میں چوہے بچوں کو کاٹ کر زخمی کر دیں، دل کے سرکاری ہسپتال میں مریضوں کو جعلی سٹنٹ ڈال دیئے جائیں اور ہسپتال کے اعلیٰ افسر کی ایسی ویڈیو بھی منظرِعام پر آ جائے جس میں جعلی سٹنٹ فراہم کرنے والی کمپنی کی عہدیدار اس کا دل لبھا رہی ہو، سینکڑوں افراد گندا پانی پینے سے ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو جائیں، ہزاروں شہری اپنے بچوں کو تعلیم، کپڑے اور مناسب خوراک فراہم نہ کر سکیں، تھرپارکر میں بچے خوراک کی قلت اور مناسب علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے پر زندگی کی بازی ہار جائیں، خواتین کے عالمی دن پر خواتین کو قومی اسمبلی میں بولنے کی اجازت نہ دی جائے تو حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام متاثرہ افراد بھی یہ تمام صورت حال برداشت کر لیں گے۔ لیکن کسی ملک کے کرکٹ کے بی گریڈ کھلاڑیوں کو ”پھٹیچر“ کہنا پاکستانی قوم کسی صورت برداشت نہیں کرے گی، اور ”پھٹیچر“ لفظ کو کھنگالنے اور پھٹیچر کہنے والے عمران خان پر تنقید کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھے گی جب تک دنیا بھر کے تمام ماہرینِ لسانیات اس قوم کو پھٹیچر کا مطلب واضح طور پر سمجھا نہ دیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس لفظ پر ہم سے پہلے بہت سے کالم نگاروں نے بہت کچھ لکھ دیا۔ اتنا کچھ لکھ دیا کہ اب یہ لفظ ہی پھٹیچر، پھٹیچر سا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ہم اس بحث میں اگر حصہ نہ ڈالتے تو یہ بھی مناسب نہیں تھا ہماری رائے تو یہ ہے کہ اب بھی اس لفظ کی بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی۔ سو ہماری یہ تجویز ہے کہ اگلے کئی ہفتوں تک یہ بحث سوشل میڈیا اور چینلجز پر جاری رہنی چاہیے۔ اس وقت تک جاری رہنی چاہیے جب تک پھٹیچر کی تمام جزئیات بچے بچے کو سمجھ نہ آ جائیں۔تاکہ آنے والی نسلوں کو بھی کان ہو جائیں اور آئندہ کوئی فرد پھٹیچر کو بھی پھٹیچر کہنے کی جسارت نہ کرے بلکہ اس ”جرم“ کی کوئی سزا بھی تجویز کر دینی چاہیے کہ اگر کوئی کسی کو پھٹیچر کہے گا تو نیشنل ایکشن پلان کے تحت اسے عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا اور اس کے خلاف آپریشن ردالفساد کے تحت کاروائی بھی ہو سکتی ہے۔سچ پوچھیں تو ہمیں یہ لفظ ہی فساد کی جڑ لگتا ہے اور اسے آپریشن رد الفساد کا حصہ ضرور بننا چاہیے۔ یقین کریں کہ مجھ سمیت پاکستان کا ہر شہری کھیلوں کا فروغ چاہتا ہے بیرون ملک سے آنے والی ٹیموں کا استقبال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی چاہتے ہیں کہ کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کے گراﺅنڈ آباد ہوں، غیرملکی کھلاڑی یہاں کھیلیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ایس ایل کے تمام میچ بیرون ملک کرانے کے بعد فائنل لاہور میں کرانا اتنا ضروری کیوں تھا۔ ؟ بہتر تو ”بابا نجومی“جانتے ہوں گے لیکن نیم کرفیو کا سماں پیدا کر کے، مساجد اور سکولوں کو تالے لگا کر، قذافی سٹیڈیم کے اطراف میں تمام سڑکیں بند کر کے میچ کراتے وقت، کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس علاقے میں بسنے والوں کی مشکلات کس حد تک بڑھ گئیں اور ان کے بنیادی حقوق کس قدر متاثر ہوئے۔زندہ لوگوں کے تو حقوق کا ہم نے کبھی خیال نہیں کیا۔ ہم مردہ پرست ہیں اور مرنے والوں کی ہمیشہ تکریم کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ تین بڑے دھماکوں میں شہید ہونے والوں کے ورثاء اور زخمی ہونے والوں کے گھرانوں پر کیا بیتی ہو گی۔کھیل انسانوں کے لئے ہوتے ہیں۔ انسان اور انسانیت کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انسانیت ہی نہ رہے تو پھر کھیل بھلا کس کام کے۔ آپ کو یاد ہو گا نسلی امتیاز کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پوری دنیا نے کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کیا تھا جو کئی برسوں تک جاری رہا۔ اس دوران وہاں نہ کوئی کھلاڑی گیا اور نہ انہیں کہیں مدعو کیا گیا۔ اس کے باوجود وہاں کرکٹ کا شوق کم ہوا اور نہ ہی کرکٹ کا معیار گرا۔ اب جنوبی افریقہ دنیا کی نمبر ون ٹیم ہے جبکہ ہماری کرکٹ ٹیم تو ماشاءاللہ دیگر ممالک میں جا کر بھی کھیل رہی ہے اور شائقین ٹی وی پر بھی میچوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ویسے ہمیں بھارت کی آئی پی ایل کی طرح پی ایس ایل کرانے کی بھلا ضرورت ہی کیا تھی۔ ایک ایسا ٹورنامنٹ جس کے فائنل میں ”گو نواز گو “کے نعروں سے غیرملکی کھلاڑیوں سمیت دنیا بھر کے سامنے ہمارا وقار مجروح ہوا۔ پھٹیچر اور ریلوکٹا کا مطلب سمجھانے کے لئے وزراء چینلز اور ”بابانجومی“کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔ لیکن ”گو نوازگو“ کا نعرہ تو انگریزی میں تھا اور انگریزی تو سب کو سمجھ آتی ہے۔ البتہ اس سارے کھیل میں ہمیں دو فائدے نظر آئے۔ایک تو پاناما پاناما سن کر ہمارے کان پک گئے تھے ۔یہ بخار کرکٹ کے شور میں دب گیا۔ دوسرا فائدہ میڈیا مالکان کو پہنچا اور یہی فائدہ بہت اہم تھا بے شک اس کے ثمرات کارکنوں تک نہیں پہنچیں گے ۔
فیس بک کمینٹ