مجھے مسائل بتانے والوں کی نسبت مسائل کا حل بتانے والے دانشور زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجھے پتہ چلا کہ شہر میں ایک انتہائی اعلیٰ درجے کے دانشور آئے ہوئے ہیں جو معاشی‘ سماجی اور طبی مسائل کے نہایت با کمال حل بتاتے ہیں تو میرے اندر بے چینی پیدا ہو گئی۔ ایک دوست کے توسط سے ملاقات کا وقت لیا اور اُن کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ میرے دوست نے بتایا تھا کہ دانشور صاحب عام لوگوں کی طرح سیدھی بات نہیں کرتے بلکہ انتہائی دانشوری سے مثال کے ذریعے ہر مسئلے کا حل پیش کرتے ہیں۔ مجھے اچھا لگا۔ میں نے بیٹھتے ہی پہلا سوال کیا ” سر! ڈالر بہت مہنگا ہو گیا ہے اِس کی قیمت کم کرنے کا کیا طریقہ ہے؟‘‘۔ دانشور صاحب نے عینک اتاری‘ میز پر رکھی… پھر ایک سگریٹ سلگایا اور گہرا کش لے کر دھیمی سی آواز میں بولے ” خنزیر کے گوشت کا کیا بھاؤ چل رہا ہے؟‘‘۔ میں بوکھلا گیا ” مم…مجھے کیا پتا ‘‘۔ دانشور صاحب کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ ” کوئی بات نہیں میں بتا دیتا ہوں، امریکہ میں خنزیر کا گوشت کافی مہنگا ملتا ہے‘‘۔ میں نے پہلو بدلا ” ملتا ہو گا لیکن سر یہ حرام چیز ہمارے ہاں تو نہیں فروخت ہوتی لہٰذا مہنگا ملے یا سستا، ہمیں اِس سے کیا؟‘‘۔ میری بات سن کر دانشور صاحب کی مسکراہٹ مزید پھیل گئی، انہوں نے دوسرا کش لیا اور میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولے ” جواب مل گیا؟‘‘۔ میں پھر بوکھلا گیا ” نہیں سر… میں نے تو ڈالر کا پوچھا تھا‘‘۔ انہوں نے گہری سانس لی ” جب خنزیر کے گوشت سے ہمیں کوئی مطلب نہیں تو ڈالر سے کیا مطلب‘ ڈالر اُن کی کرنسی ہے ہماری نہیں لہٰذا مہنگا ہو یا سستا‘ ہم کیوں پریشان ہوں‘‘۔ سبحان اللہ… جواب سن کر مجھے لگا کہ دانشور آخر دانشور ہی ہوتا ہے۔ کیا شاندار بات کی تھی۔ سارا مسئلہ چٹکیوں میں حل کر دیا۔ میں نے داد طلب نظروں سے اُن کی طرف دیکھا اور دوسرا سوال کیا” سر! یہ فرمائیے کہ مہنگائی بہت ہو گئی ہے ، اِس کا کیا علاج ہے؟‘‘۔ دانشور صاحب نے سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں جھاڑی۔ عینک اٹھا کر دوبارہ لگائی اور تھوڑا قریب ہوتے ہوئے بولے ” مچھر کاٹتے ہیں؟‘‘۔ میں چونک گیا ”مچھر؟ جی ہاں کاٹتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا ” تو پھر تم کیا کرتے ہو؟‘‘۔ اِس عجیب و غریب سوال پر میں نے کچھ سوچا ” جی میں کمرے میں مچھر مار سپرے کر دیتا ہوں یا میٹ لگا لیتا ہوں۔‘‘ انہوں نے ہنکارہ بھرا ” اِس سے کیا ہوتا ہے؟‘‘۔ میں نے غور سے ان کا سوال سنا اور جلدی سے کہا ” مچھر ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘ میرا جواب سن کر ان کے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ رینگنے لگی۔ یقیناً انہوں نے کوئی بڑے پتے کی بات کہہ دی تھی جو میرے سر سے گزر گئی تھی۔ میں نے تیزی سے ذہن میں اُن کے سوالوں کو دہرایا اور جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔ شائد وہ بھی میری الجھن سمجھ گئے تھے‘ لہٰذا مسکراتے ہوئے بولے ” چلو مچھر چھوڑو، یہ بتائو کہ جب تمہیں کچن یا باتھ روم میں کوئی کاکروچ نظر آتا ہے تو کیا کرتے ہو؟‘‘۔ ایک لمحے کے لیے میرا دل چاہا کہ کہہ دوں‘ اُسے چائے وائے پلاتا ہوں پھر خود پر کنٹرول کیا اور بے بسی سے کہا ” مار دیتا ہوں اور کیاکرنا ہے‘‘۔ وہ مسلسل مسکرائے چلے جا رہے تھے ” جب مار دیتے ہو تو کیا وہ زندہ رہتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے؟‘‘۔ میں نے فوری طور پر پچھلے تجربات کو یاد کیا اور پورے اعتماد سے کہا ” ختم ہو جاتا ہے‘‘۔ دانشور صاحب نے عینک درست کی اور کندھے اچکا دیے ” پس ثابت ہوا کہ مہنگائی ختم کر دو‘ مہنگائی ختم ہو جائے گی۔‘‘ یہ ایک اور شاندار جواب تھا جس نے میرے ذہن کی چولیں تک ہلا کر رکھ دیں۔ اتنا سادہ حل آج تک کسی کے ذہن میں کیوں نہیں آیا؟۔ میں نے بے اختیار اُن کے ہاتھ چوم لیے اور اگلا مسئلہ بیان کیا… ” سر! میرے ایک دوست کا چہرہ آگ سے جل گیا تھا، پلاسٹک سرجری سے اس کا چہرہ ٹھیک ہو سکتا ہے‘ میرا دوست صاحب حیثیت ہے لیکن ڈاکٹر نے خرچہ بہت ہی زیادہ بتایا ہے۔آپ کوئی حل بتائیں۔‘‘ دانشور صاحب نے توجہ سے میری بات سنی اور کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کی۔ دو تین منٹ تک کمرے میں سکوت رہا‘ پھر اُن کی آواز گونجی ”کپڑے پہنتے ہو؟‘‘۔ میرا ہاتھ بے اختیار صوفے سے پھسل گیا‘ میں گھگھیایا ”جی … جی ہاں… اب بھی پہنے ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے سر ہلایا ” ریڈی میڈ لیتے ہو یا کپڑا لے کر درزی سے سلواتے ہو؟‘‘۔ میں جھجکا ” جی! کبھی ریڈی میڈ لے لیتا ہوں‘ کبھی درزی سے سلوا لیتا ہوں‘‘۔ اُن کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ کا ظہور ہوا ”کون سا سستا پڑا ہے؟‘‘۔ میں نے کندھے اچکائے ” ظاہری بات ہے خود کپڑا خرید کر درزی کو دوں تو سستا پڑتا ہے‘‘۔ وہ کھنکارے ”تو بس یہی حل ہے تمہارے دوست کے مسئلے کا۔‘‘ میں الجھن میں پڑ گیا۔ کپڑے اور درزی کا میرے دوست کے جلے ہوئے چہرے کے حل سے کیا تعلق۔ میں نے دانشور صاحب سے معذرت کی اور بتایا کہ میں بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔ انہوں نے سگریٹ کا آخری کش لیتے ہوئے اسے ایش ٹرے میں بجھایا اور بچا کھچا دھواں پنکھے کی طرف روانہ کرتے ہوئے بولے ”دوست سے کہو سرجری ڈاکٹر سے کروائے اور پلاسٹک اپنا لے جائے… نہایت سستا پڑے گا‘‘۔ یہ سنتے ہی ایک دم سے میرے ذہن کے سب دروازے کھل گئے۔ یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ سستی پلاسٹک سرجری یوں بھی ہو سکتی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب میرا دوست بالکل ٹھیک ہو جائے گا کیونکہ میں نے اُس کی چھت پر تین چار پلاسٹک کی فالتو کرسیاں ٹوٹی ہوئی پڑی دیکھی تھیں۔ میں نے پوری عقیدت سے دانشور صاحب کے پیر چھوئے اور تیسرا مسئلہ پوچھا ” براہ کرم حل تجویز کیجئے کہ بکرا عید پر قربانی کا جانور بہت مہنگا ملتا ہے‘ کئی لوگ نہیں خرید سکتے۔ سستا جانور کیسے مل سکتا ہے؟‘‘۔ میرا سوال سن کر وہ آہستہ سے اٹھے اور اپنے پاس پڑی کتاب اٹھا کر الماری میں رکھی۔ پھر واپس مڑے‘ ایش ٹرے اٹھائی اور ڈسٹ بن میں خالی کی۔ دوبارہ صوفے پر براجمان ہوئے اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے ” دفتر کتنے بجے جاتے ہو؟‘‘۔ اب کی بار سوال سن کر مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی‘ میں نے اطمینان سے جواب دیا ” دوپہر دو بجے‘‘۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ چونکہ میں ” علی الدوپہر‘‘ اٹھتا ہوں لہٰذا خاص خیال رکھتا ہوں کہ سکول کی چھٹی کے وقت آفس نہ جاؤ ں کیونکہ سڑکوں پر بہت رش ہوتا ہے۔ میرا جواب سن کر دانشور صاحب نے بے اختیار تالی بجائی ” ویری گڈ! اپنے مسئلے کا حل تم نے خود بتا دیا ہے‘ سستا جانور لینا ہو تو عید کے چوتھے دن لیا کرو، تین گنا کم قیمت پر مل جائے گا۔‘‘ یہ سنتے ہی میری روح میں سرشاری اترتی چلی گئی۔ کتنی آسانی سے انہوں نے میرے بڑے بڑے مسائل نمٹا دیے تھے۔ میں نے ایک بار پھر ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور گزارش کی کہ وہ بھی مجھ سے کوئی سوال کریں تاکہ مجھے اندازہ ہو کہ کیا میں بھی دانشوری کے چھوٹے موٹے مقام پر فائز ہوں یا نہیں۔انہوں نے تبسم فرمایا‘ سرہلایا‘ کچھ سوچا اور پھر پوچھا ” یہ بتا ؤ کہ زیبرے اورگدھے میں جسامت کے علاوہ کیافرق ہے؟‘‘ میں نے انتہائی عزت سے جواب دیا” سر!بلب جل رہا ہو تو روشنی کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ وہ چونکے” ارے واہ! آپ نے بھی میرے والا انداز اپنا لیا، لگتاہے آپ بھی دانشور کہلانے کی کوشش میں ہیں۔‘‘ میں نے جھک کراپنی جوتیاں بغل میں دباتے ہوئے آہستہ سے کہا” ذرہ نوازی ہے سر ! لیکن بھلا ایک زیبرا کیسے دانشور کہلا سکتاہے۔‘‘
فیس بک کمینٹ