پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو دل ہول کر رہ جاتا ہے کہ اِس مملکت کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ نہیں ہوئے ۔کون سا کچوکہ ہے کہ جو اسے نہیں دیا گیا اور کون کون سے زخم ہیں جن کے لگائے جانے کے بعد اُنہیں کھلا چھوڑ کر اُن میں حسب ِ توفیق نمک نہیں بھرا گیا۔ میں حیران ہوتا ہوں یہ کیسا معجزہ ہے کہ بحران در بحران ڈبکیاں کھانے کے باوجود یہ وطن عزیز نہ صرف پائندہ ہے بلکہ اپنے ناقدین کو اپنی مزاحمتی صلاحیتوں سے پریشان کئے جاتا ہے۔پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی وہ سبھی طاقتیں اُس کے وجود میں پنجے گاڑنے کو جھپٹ پڑیں کہ جنہوں نے اِس علیحدہ وحدت کے بنائے جانے کی رَج کے مخالفت کی تھی۔یہ سازشیں پاکستان کے وجود کے منکر طبقات کی تھیں کہ جنہوں نے اِس کے قائد ِاولیں کو ماڑی پور کراچی کے ریلوے پھاٹک پر زندگی کی آخری سانسیں لینے کے لیے ایک پھٹیچر ایمبولینس میں ہی روکے رکھا اور اِس کے پہلے وزیر اعظم کو لیاقت باغ راولپنڈی گولی کا نشانہ بنا دیا۔
قیام ِ پاکستان کے پہلے دس برس ایک ایسی لوٹ کھسوٹ سے عبارت ہیں کہ جس میں اربوں روپے کی متروکہ املاک کی بندر بانٹ کی گئی۔ 1947ءمیں بھارت میں اپنا سب کچھ لُٹا کر آنے والے مہاجروں کو یہاں سوائے خواری اور درماندگی کے کچھ بھی نہ ملا اور اُس کے بعد کے برسوں میں حتیٰ کہ 1960 تک آنے والے مہم جو جن کے پاس انڈیا میں رہنے کو فٹ پاتھ بھی نہ تھا کروڑوں کی جائیدادیں ہتھیانے میں کامیاب ہو گئے۔صاف ظاہر ہے کہ بد دیانتی کے اِس عمل میں ہماری وہ بیوروکریسی بھی شامل تھی کہ جس کے اکثر میٹرک فیل کارپردازان بھی انڈیا سے ہی آئے اور یہاں محض ایک بیان حلفی کی بنیاد پر ایم اے، بی اے بن کر اُن محکموں کے حاکم بن بیٹھے کہ جہاں اُن کی کرسیوں کے نیچے ناجائز دولت کی ریل پیل آنکھوں کو خیرہ کئے جارہی تھی۔”پرمٹ اور ناجائز الاٹمنٹ “ہی وہ جادوئی گملا تھا کہ جہاں سے سماجی نا انصافی کا وہ کیکٹس پھوٹا جس نے گذشتہ ستر برسوں سے اِس ملک کو کرپشن کے تھوہر سے بھرا ہوا جنگل بنا دیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں ایک برطرف شدہ اسکول ٹیچر نے میری جنم بھومی احمد پور شرقیہ میں مے فلاور کے نام سے ایک پرائیویٹ اسکول کھولا ۔اِس اسکول کا” شہر ہ“ یہ تھا کہ وہاں بگڑے ہوئے نالائق طالب علموں کو اچھی بھلی رقم کے عوض شرطیہ میٹرک پاس کروانے کا دھندہ کیا جاتا ہے۔ یقین کیجئے کہ شرفاءکے حلقوں اور سرکاری اسکول کے اساتذہ اور طالب علموں کے نزدیک اُس اسکول کے قریب سے گزرنا تو درکنار اُس کا نام لینا بھی گناہ تصور کیا جاتا تھا۔ٹیوشن جہاں باعث شرمندگی تھی وہاں اساتذہ امتحانوں کے نزدیک صبح سویرے زیرو پیریڈ پڑھانا اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے۔مگر اب حال یہ ہو گیا کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم باعث ِ ندامت اور ”اکادمی“ کے متبرک نام سے ”ٹیوشن“ کا دھندہ کرنے والے اساتذہ معاشرے کا بااثر اور قابل فخر طبقہ سمجھے جاتے ہیں کہ جن کا کام اِس کے علاوہ کچھ نہیں رہا کہ تعلیمی بورڈز کے متعلقہ عملے سے ”میل ملاپ“ کے ذریعے اپنے اداروں کے لیے پوزیشنیں خریدیں اور اپنے تعلیم فروشی کے کاروبار کی مارکیٹنگ کریں۔
قیام ِ پاکستان کے بعد کی دوسری دہائی (1958-67) اگرچہ ایوب خان کے مارشل لاءسے عبارت ہے مگر اِس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ ہمارے ہاں کی ادارہ جاتی ترقی اِسی دور کی مرہون ِ منت ہے۔یہی وہ دور تھا کہ جس میں باقاعدہ منصوبہ بندی کا ادارہ وجود میں آیا، بلدیاتی سطح پر ترقی کی بنیاد رکھی گئی اور معیشت کو کرپشن سے پاک ایک ایسا ماحول مہیا کیا گیا کہ جس میں سیاسی رخنہ اندازی نہ ہونے کے برابر تھی۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے باوجود صنعتی ترقی کا پہیہ بدستور چلتا رہا ۔ایک جانب ملکی وقار کا معیار یہ تھا کہ جب یہی ایوب خان سرکاری دورے پر امریکہ پہنچے تو اُس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اپنی بیگم کے ساتھ ایئر پورٹ پراُن کا استقبال کیا اور اب عالم یہ ہے کہ میاں نواز شریف اِس آس پر سعودی عرب جا پہنچے کہ وہاں دورے پر آئے ہوئے صدر ٹرمپ شاید اُن پر بھی ایک نگاہ ڈال لیں مگر یہ حسرت، حسرت ہی رہی۔ تمام تر تدبر کے باوجودصدرایوب خان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے امریکہ سے مراسم کودو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بجائے ذاتی دوستی سمجھ لیااور جب اِس حقیقت کا ادراک ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی کہ جس پر جلتی پر تیل کا کام اُن کی کتاب Friends not mastersنے کیاجس کا اردو ترجمہ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“کے نام سے ہوا۔میرے نزدیک 1965ءکی پاک بھارت جنگ بھی ایک بین الاقوامی سازش تھی کہ جس کا مقصد پاکستان میں ہونے والی ترقی اور سیاسی استحکام کو ریورس گیئر لگانا تھا۔سوویت یونین نے جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر یوب خان کو مذاکرات کے لیے تاشقند بلایا تو اس کا نتیجہ بھی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک کی صورت نکلاکہ جس کی قیادت اُن کے سابق وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو کر رہے تھے۔ مگر یہ بات الگ کہ ایوب خاں جیسے سخت گیرحاکم کو اِس ہزیمت آمیز تحریک کا سامنا بظاہر ”معاہدہ تاشقند“ کے کبھی نہ افشاءہونے والے راز کے مکاشفے کی دھمکی کے سبب کرناپڑا تھا کہ جس کی تان آخر کار اِس بات پر ٹوٹی کہ چینی کا نرخ چار آنے زیادہ کیوں کیا گیا ہے۔اگرچہ ایوب خان مستعفی ہو کر گھر چلے گئے مگر اُن کے دامن پر کرپشن کا دھبہ آج تک کوئی نہ دکھا سکا۔
یہی حال ہمیں پاکستان کے قیام کی تیسری دہائی(1968-1977) میں دکھائی دیتا ہے کہ جب اِس کے آغاز میں عنان ِ اقتدار یحییٰ خان کے ہاتھ میں آئی۔مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں سے روا رکھی جانے والی عصبیت اور ون یونٹ توڑے جانے کے عمل میں غیر فطری اور تاریخی حقائق کے منافی رویوں نے سیاسی بے چینی کو اِس قدر ہوا دی کہ اِس کا نتیجہ ایک اور پاک بھارت جنگ اور مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو کر بنگلا دیش بننے کی صورت میں نکلا۔ جنرل یحییٰ خان کی تمام تر ”غیر اخلاقی مصروفیت“ اور سیاسی سوچ بوجھ کے فقدان کے باوجود اُن کی ذات پر مالی بددیانتی کا کوئی داغ دکھائی نہیں دیتا۔ اُن کے جانشیںذوالفقار علی بھٹو کی ذات سے منسوب تمام تر تنازعات سے قطع نظریہ اعجاز انہی کی کرشماتی شخصیت کا تھا کہ جس نے سقوط ِڈھاکہ کے صدمے سے جاں گسل قوم کو پھر سے جینے کا حوصلہ دیا اور اسلامی کانفرنس کے انعقاد کی صورت پوری اُمہ میں پاکستان کے ہمیشہ رہنے والے کردار کا تعین کر دیا۔اُن کے دور میں جہاں ڈاکٹر مبشر حسن جیسے معاشی دانشور نے ملکی معیشت کا ”عوام دوست “ تاثر نمایاں کیا وہاں شیخ رشید احمد مرحوم جیسے دانا نے قومی صحت پالیسی کے ذریعے ادویات کے تجارتی (ٹریڈ) ناموں کی بجائے اصل( جنرک) نام سے فروخت کو لازم قرار دے کر ملٹی نیشنل ادویہ ساز کمپنیوں کی لوٹ مار اور ناجائز منافع خوری کو نکیل ڈال دی۔ صنعتی نجکاری اور اسلامی بلاک بنانے جیسے اور بھی کئی عوامل تھے کہ جن کے سبب بھٹو کو تختہ دار پر کھینچنا لازمی ہو گیامگر اِس کے باوجود اُن کی حکومت پر مالی کرپشن جیساالزام تک لگانا بھی ضیاءالحق کے لیے ناممکنات میں سے رہا۔
ہماری سیاست میں کرپشن کا موجودہ عفریت ضیاالحق کے دور میں مختلف بھیس بدل کر اِس طرح داخل ہوا کہ کبھی مذہبی حلقوں کو بے محابہ نوازا گیا اور کبھی بھٹو مخالف تاجروں، صنعتکاروں، صحافیوں اور سیاست فروش سازشیوںکو منہ مانگے داموں خریدا گیا ۔مقصد ایک ہی تھا کہ بھٹو اور اُس کی پارٹی کو تاریخ کے اوراق میں دفن کرنا۔ اِس سارے عمل میں اگرچہ ضیا الحق کی اپنی ذات مالی کرپشن کے الزامات سے مبرا رہی مگر اُن کے اطراف میں موجود تجارت پیشہ سیاست دانوں نے بھرپور طریقے سے ”دیہاڑی لگانے“ کے کلچر کو فروغ دیا۔یہ دیہاڑیاں لاکھوں کی نہیں کروڑوں میں لگنا شروع ہوئیں تو 1980ءکی دہائی کے وسط میں معاشرتی زندگی کے سبھی شعبوں میں عزت اور توقیر کا میعار ”شرافت اور نجابت“ کی بجائے پیسہ اور صرف پیسہ ٹھہرا۔مجھے یاد ہے کہ 1985ءمیں جب پنجاب میں اے ایس آئی اور نائب تحصیلدارکی آسامیوں پر تقرری کے لیے صوبائی اسمبلی کے ممبران کو نوازنے کا سلسلہ شروع ہوا تو لاکھوں میں لگنے والی بولیوں کے نتیجے میں ایسے ایسے لوگ بھی پولیس اور محکمہ مال میں بھرتی ہوگئے کہ جن کا ماضی مجرمانہ اور عمر چالیس کیا پچاس برس سے بھی اوپر تھی۔اُس وقت ایک کرشماتی جملے all the rules relaxed نے ایسی ایسی مشکل کشائی کی کہ ”حیرت“ کو بھی ”حیرت زدہ“ ہونا پڑا۔اُس وقت بھی میں نے اپنے کسی مضمون میں لکھا تھا کہ آج کے یہ مجرمانہ پس منظر کے حامل اے ایس آئی جب ترقی یاب ہو کر DSPاور نائب تحصیلداراسسٹنٹ کمشنر بنیں گے تو معاشرے میں امن امان کی صورتحال کس قدرخوفناک ہوگی۔اور پھر یہی ہوا۔لاکھوں لگا کر بھرتی ہونے والوں نے جب کروڑوں کمانے شروع کئے تو خلق ِ خدا چیخ اُٹھی کہ نہ تو انہیں تھانے چاہئیں اور نہ ہی محکمہ مال کی کچہریاں۔خانیوال کے اہلیان کو یا دہو گا کہ 1995ءمیں کس طرح تھانہ کچہ کھوہ کے باشندوں نے ٹرالیاں بھر کر جلوس نکالے تھے کہ انہیں اپنے ہاں تھانہ نہیں چاہئے۔
یہ آغاز تھا اُس دور کا کہ جس کی انتہا ”پانامہ اور پیراڈائز “ کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔میں سوچتا ہوں کہ کیساملک بنا دیا گیا ہے پاکستان کو کہ جس کے دارلحکومت کی وسطی گزرگاہ کے نیچے محض تین چار لڑکے لٹھ اُٹھا کر لاکھوں کی آبادی اور ہزاروں موٹروں، ویگنوں اور بسوں کوگذشتہ ایک ہفتے سے ادھر اُدھر دھکے کھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ ہزاروں لوگوں میں اتنا دم خم بھی نہیں رہا کہ وہ تین چار لڑکوں کا سامنا کرنے کی بجائے پورا پورا دن اپنے گھر جانے کا راستہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔کوئی مرے یا جئے پنجاب اسمبلی چوک لاہور ہو یا میٹر و ٹریک یہ سب تین چار لٹھ برداروں کے رحم وکرم پر ہیں۔ کہاں ہے حکومتی رِٹ اور کہاں ہے حکومت۔ کیا کوئی ابن مریم باقی نہیں رہا۔مگر یہ والا نہیں وہ والا۔
فیس بک کمینٹ