جناب وزیرعظم!
معاف کیجئے گا عوام بے صبرے ہرگز نہیں۔ خواب تعبیر سے پہلے چوری ہو جائیں تو پریشانی ہوتی ہے اور مسائل پر لوگ بولتے بھی ہیں۔ آپ اگر پچھلے دس برسوں یا پھر اکتوبر2011ء کے بعد کی گئی اپنی تقاریر، انٹرویوز اور غیررسمی گفتگوؤں پر ایک نگاہ ڈال لیں تو خود ہی سمجھ جائیں گے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ملک میں روزانہ اربوں روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔اس دعویٰ کو اگر ہم 5ارب روزانہ کے حساب سے بھی مان لیں (یاد رہے کہ دعویٰ بہت زیادہ رقم کا تھا) تو آپ کے دور اقتدار کے 13ماہ میں 1975ارب روپے کی بچت کرپشن کی مد میں ہوئی، کم ازکم اس رقم سے معاشرے کے نچلے طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے ملک بھر میں چھوٹی صنعتیں ہی لگالی جائیں۔
پٹرول 45روپے لیٹر فروخت ہونا چاہئے کی باتیں ہم روزانہ سنتے تھے مگر آپ کی حکومت بھی فی لیٹر پٹرول پر خالص منافع47روپے حاصل کر رہی ہے۔ موٹر سائیکل رکھنے والا ایک شخص اگر روزانہ حکومت کو47روپے ٹیکس دیتا ہے تو ایک ماہ میں1417روپے ٹیکس بنتا ہے، ایک اندازے کے مطابق چاروں صوبوں میں اس وقت ساڑھے پانچ کروڑ موٹر سائیکل ہیں، حساب لگا لیجئے کہ1417روپے کے حساب سے ساڑھے پانچ کروڑ موٹر سائیکل والے ایک ماہ میں کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں لگ بھگ 37سے50فیصد اضافہ ہوا ہے، پچھلے سال کے اسی ماہ میں پیاز30روپے سے40روپے کلو تھے اب یہ 70سے90روپے کلو میں فروخت ہورہے ہیں، یہ ایک مثال ہے۔ یہی صورت چینی، دالوں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کے حوالے سے ہے۔
کاروبار کے مندے کے اثرات وسیع ہیں پچھلے برس اگر ایک دیہاڑی دار مزدور کو سات میں سے 5دن مزدوری مل جاتی تھی تو اب یہ اوسط 3دن کی رہ گئی ہے۔
جناب وزیراعظم!
آپ کو یاد ہوگا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سکینڈل سامنے آنے پر آپ نے وفاقی وزیرصحت کو کابینہ سے رخصت کیا تھا لیکن تحقیقات کا وعدہ پورا نہیں ہوا اور ناہی ادویات کی قیمتیں واپس پہلی سطح پر آئیں بلکہ گزشتہ روز ادویات کی قیمتوں میں پچھلے ایک سال کے دوران ساتویں بار اضافہ کر دیا گیا۔ حالیہ اضافہ 5فیصد ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے ماتحت کسی ادارے کے ذریعے معلوم کروا لیجئے، پچھلے 40برسوں میں اضافے کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ مہنگائی کے سیلاب بلا اور اخراجات کے مقابلہ میں اخراجات کے بڑھ جانے سے سب سے زیادہ دیہاڑی دار اور لوئر مڈل کلاس متاثر ہوئی۔ اپرلوئر (سفید پوشوں) مڈل کلاس کی حالت بھی ابتر ہے۔
آپ نے کل ایک ٹرسٹ کے اشتراک سے اسلام آباد میں لنگرخانہ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ”جب تک ملک میں کاروبار شروع نہیں ہوتا لنگرخانے کھولتے رہیں گے اور ہماری کوشش ہوگی کہ کوئی بھوکا نہ رہے”
کیا آپ جانتے ہیں ایک سال کے دوران ملک میں خط غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کی تعداد مجموعی آبادی کے نصف سے 5فیصد زیادہ ہوگئی ہے۔ ہمارے تجزیہ کار دانشور، سیاپا فروش اور سروے فروش کبھی بڑے شہروں کی دنیاؤں سے آگے دیہاتی علاقوں کے حالات اور سسکتی زندگی بارے جاننے کی کوشش نہیں کرتے ورنہ انہیں علم ہوتا کہ ملک کی 67فیصد آبادی جو دیہی علاقوں میں مقیم ہے اس کے حالات کیا ہیں اور وہ کن عذابوں سے دوچار ہیں۔
جناب وزیراعظم!
پچھلے13ماہ کے دوران بجلی کے نرخوں میں خون رلا دینے والا اضافہ ہوا، کیا کسی حکومتی ذمہ دار نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ بجلی اور سوئی گیس کے نرخوں میں اضافے سے صارفین کی کیسی درگت بنی؟ مکرر عرض کرتا ہوں امراض قلب کے ایک مریض کی جو ادویات (ایک ماہ کیلئے) پچھلے سال 3700 سے 3900روپے میں آتی تھیں اب وہی ادویات 7000سے7500روپے میں آتی ہیں۔ اس پر ستم یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولتیں ختم کردی گئی ہیں، بعض ہسپتالوں میں تو معائنہ پرچی فیس 10روپے کی بجائے 50روپے کردی گئی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں سرکار نے سال بھر میں ایک بار لیکن ٹرانسپورٹروں نے تین بار اضافہ کیا۔ پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ ایک اور عذاب ہے۔
جناب وزیراعظم!
لوگ بے صبرے نہیں ہوئے بلکہ مہنگائی اور دوسرے مسائل نے ان کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ سٹیٹ بینک کے گورنر کہتے ہیں دو ارب ڈالر ماہانہ کا خسارہ ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ مہنگائی میں اگلے دوبرسوں کے دوران 12فیصد مزید اضافہ ہوگا۔ دفتری بابوؤں کے 12فیصد کے حساب کا مطلب یہ ہے کہ مہنگائی 30سے 40فیصد مزید بڑھے گی۔ آپ خاموشی سے کسی ایماندار افسر کے ذریعے معلومات کروا لیں کہ لاہور اور فیصل آباد کے صنعتی علاقوں میں پچھلے ایک سال کے دوران کتنی فیکٹریاں بند ہوئیں۔صورتحال کی سنگینی خود ہی جان لیں گے۔
جناب وزیراعظم!
پنجاب میں ریٹائرڈ ملازمین کو تین تین ماہ پنشن نہیں ملتی۔ اس صورتحال پر عوام گھبرائیں نا تو کیا کریں۔گھبراہٹ اور بے صبری میں فرق ہوتا ہے اور یہ فرق آپ بھی جانتے ہیں ۔ ہم نے مان لیا کہ ریاست مدینہ (اصل والی) چند ماہ میں قائم نہیں ہوئی تھی مگر بندہ پرور اس ریاست میں لنگرخانے کھولنے کی بجائے روزگار کے ذرائع پیدا کئے جاتے تھے۔
جناب وزیراعظم!
آپ کا اقبال بلند تر ہو بھاگ لگے رہیں مگر اس امر پر غور وفکر کی زحمت ضرور کیجئے، اگر 22کروڑ کی آبادی والے ملک میں اگر خط غربت سے نیچے بسنے والے مجموعی آبادی کے نصف سے 5فیصد زیادہ ہیں تو حالات کیا ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہمیں ستر سال اور چالیس سال کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ ہم نے مان لیا کہ چالیس سال یا ستر سال میں سبھی کفن چور تھے مگر بندہ نواز اب تو کرپشن نہیں ہورہی، سرکار کا خزانہ محفوظ ہاتھوں میں ہے، آپ کے پاس اصلاح احوال کا کوئی جامع پروگرام ہوتا تو تبدیلی کے ثمرات کی کم ازکم کونپلیں ہی پھوٹ پڑتیں ایک سال میں۔
واسلام
آپ کا خیراندیش
فقیر راحموں
10 اکتوبر 2019ء
( بشکریہ : روزنامہ مشرق پشاور )