ابھی تین دن قبل بجلی کے فی یونٹ قیمت میں ایک روپیہ چھیاسٹھ پیسے کا اضافہ ہوا‘ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اور اب پھر 2روپے چھیاسٹھ پیسے فی یونٹ اضافے کی دو دھاری تلوار لٹکانے کا فیصلہ ہونے کو ہے۔ فیصلہ سازوں کی مت ماری گئی ہے یا سارے خسارے بجلی کی قیمت بڑھا کر پورے کرنے کو حرف آخر سمجھ لیا گیا ہے؟
دو دن ادھر ایک سفید پوش دوست نے دکھ سے بتایا ان کے گھر پچھلے ایک ماہ سے صرف ایک وقت کھانا پکتا ہے۔ کیوں میں نے دریافت کیا؟
آنسو چھپاتے ہوئے کہنے لگے دو پنکھوں اور تین انرجی سیور کے استعمال پر بجلی کا بل 5999روپے آیا۔ سوئی گیس کا 700 روپے‘ بچوں کی فیسوں اور موسمی بیماریوں پر اخراجات کے بعد اتنے پیسے بچتے ہی نہیں کہ دو وقت کی روٹی کا انتظام ہوسکے۔ بچے سکول اور میں صبح دفتر ناشتے کے بغیر جاتے ہیں۔ ایک کپ چائے اور ایک ایک رس بچوں کا ناشتہ کہہ سکتے ہیں۔ پہلے رکشہ میں دفتر جاتا تھا اب مسافر ویگن کے ذریعہ سفر ہے۔ دفتر میں ایک دو ساتھی دوپہر کے کھانے کےلئے محبت بھرا اصرار کرتے ہیں مگر یہ سوچ کر انکار کردیتا ہوں کہ دو معصوم بچے اور شریک سفر اس نعمت سے محروم ہوں تو لقمے حلق سے اتارنا جرم ہوگا۔ یہ ایک گھر کا حال ہے‘ اس دوست کا جو سال بھر قبل ضرورت مند سفید پوش دوستوں کی مدد میں پیش پیش رہتا تھا۔
ادارہ شماریات نے پچھلے ہفتہ کی رپورٹ میں خود تسلیم کیا کہ رواں ہفتہ کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 17فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موسم کے مطابق سرد گرم ہوتے دفاتر میں بیٹھ کر رپورٹ مرتب کرنا آسان ہے، وفاقی ادارہ شماریات کے بابووں نے بازاروں میں دھکے کھا کر قیمتوں کے اُتار چڑھاو اور معلومات لی ہوتیں تو انہیں پتہ چلتا کہ پچھلے ماہ ستمبر کے تیس دنوں اور رواں اکتوبر کے اختتام سے دو تین قبل کے عرصہ میں مہنگائی میں مجموعی طور پر 40فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کڑوا سچ یہی ہے کہ سفید پوش طبقے کی زندگی اجیرن ہوچکی۔ اب تو خود متوسط طبقہ شاکی ہے۔
کاروبار میں مندے کا رجحان پچھلے سال کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کی بڑی وجہ یوٹیلٹی بلز اور روزمرہ ضرورت کی اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ فقیر راحموں کبھی کبھی وزیراعظم عمران خان کی ماضی کی ان تقاریر کے ویڈیو کلپس سنواتے رہتے ہیں جس میں خان صاحب بتا رہے ہوتے ہیں کہ مہنگائی کب اور کیوں ہوتی ہے۔ جواب میں اسے بتاتا سمجھاتا ہوں کہ جناب عمران خان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ انہیں اچھی ٹیم نہیں ملی۔
بے لگام مہنگائی کی ایک وجہ بجلی گیس اور پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ضرور ہے مگر یہ ایک وجہ ہے دوسری وجہ منافع خوری کی ہوس ہے۔ ایک ہی بازار میں ایک چیز تین دکانوں پر مختلف نرخوں پر فروخت ہوتی ہے یہاں تک کہ ریڑھی والے بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ایک ریڑھی پر اگر انگور 200روپے کلو مل رہے ہیں تو چند قدموں کے فاصلے پر قیمت 250روپے ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا دور دور تک نام ونشان نہیں۔
مارکیٹ کمیٹیوں کے اہلکاران صرف دیہاڑی کھری کرنے کےلئے ہیں۔
پنجاب میں دوسرا سنگین مسئلہ پنشنروں کو وقت پر پنشن کا نہ ملنا۔ بلدیات‘ لائیو سٹاک‘ خوراک اور لوکل گورنمنٹ کے ریٹائرڈ ملازمین کا بہت برا حال ہے۔
سینکڑوں نہیں ہزاروں سابق ملازمین کی 3 سے 5سال بعد بھی پنشن شروع نہیں ہوئی۔ جمعہ کے روز وسطی پنجاب کے نصف درجن چھوٹے بڑے شہروں میں ان اداروں کے سابق ملازمین نے مظاہرے کئے۔ بزرگ خواتین وحضرات کی حالت زار دیکھ کر راہ گیروں کی آنکھوں میں آنسو اُتر آئے۔ تصور کیجئے 25 سے 30سال فرائض منصبی ادا کرکے سبکدوش ہونے والے ملازمین کی 3 سے ٥ سال بعد بھی پنشن شروع ہوئی ہو نا انہیں ان کی گریجویٹی ملی ہو تو ان کے گھروں میں کیا حالات ہوں گے۔
پنجاب کے ہی بعض اداروں میں ریٹائرڈ ملازمین بالخصوص بلدیاتی اداروں کے ان سینکڑوں سکولوں کے ریٹائرڈ اساتذہ کرام کو پچھلے چار ماہ سے پنشن نہیں ملی۔ نئی نسل کو علم کی روشنی سے مالامال کرنے والے ان بزرگ اساتذہ کرام کے گھروں میں فاقے ناچ رہے ہیں کوئی سننے والا ہے نا سنتا ہے۔
ان اساتذہ کے مجرم میاں شہباز شریف ہیں جنہوں نے اکثر بلدیاتی اداروں کے پنشن کےلئے فکس فنڈز نکلوا کر لاہور کی میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبوں میں جھونک دئیے۔ وہ جب تک حکومت میں تھے ایک آدھ ماہ کے وقفے سے پنشن مل جاتی تھی پھر نگران حکومت سے اب تک صورتحال یہی ہے کہ تین چار ماہ بعد پنشن ملتی ہے۔مہنگائی اور ابتری کس کس بات کا کوئی رونا رویا جائے ۔
ستم یہ ہے کہ امراض قلب کے جن مریضوں کو مستقل ادویات کھانا ہوتی ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ امراض قلب کے ہسپتالوں سے پہلے غریب مریضوں کو مفت ادویات مل جاتی تھیں اب وہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ اوسطاً چار سے پانچ ہزار روپے کی ادویات ملتی ہیں مہینہ بھر کی اس میں بھی سال بھر کے دوران دو بار اعلانیہ اور ایک بار غیراعلانیہ اضافہ ہوا۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ چند ماہ قبل جس وزیر کو اس کے منصب سے الگ کیا گیا تھا تو دوبارہ ”معزز“ ہوگیا مگر یہ رپورٹ سامنے نہیں آئی کہ ادویات کی 40فیصد اضافے کی پالیسی میں 100فیصد اضافہ کیسے ہوا اور کس نے کیا وصول کیا۔
ملکی سیاست میں گرماگرمی ہے، آزادی مارچ پچھلی شب کے دوسرے حصہ میں کراچی سے سکھر پہنچ چکا تھا ان سطور کے لکھے جانے کے کچھ دیر بعد اسے ملتان کےلئے روانہ ہونا ہے۔ کیا ارباب اختیار ٹھنڈے دل سے غور کریں گے کہ بے لگام مہنگائی اور دوسرے مسائل کا شکار لوگوں کی ہمدردیاں کس کےساتھ ہوں گی۔ اوروں کو نہیں خود جناب وزیراعظم کو ماضی میں کہے گئے اپنے الفاظ کی روشنی میں غور وفکر کرنا ہوگا کہ ملک میں مہنگائی کب اور کیوں ہوتی ہے۔
( بشکریہ روزنامہ مشرق پشاور )