جب لال لال لہرائے گا۔۔۔ تب ہوش ٹھکانے آئے گا لگاتے نعرہ بہت سے لوگوں کو اپنا سٹوڈنٹ دور یاد آ گیا کسی کو اپنی بائیں بازو کی وہ تحریک یاد آگئی جو ضیاء جیسے فوجی نے کچل کے رکھ دی تاکہ ان کی آنے والی نسلیں اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں۔
کسی نے نعرہ لگایا مشعال تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔ وہاں موجود مشعال کے والد سرخ رنگ میں کئی مشعالوں کو دیکھ کے آنکھیں نم ہونے سے نہ روک سکا.
ہم کیا چاہتے، آزادیی۔۔۔۔تعلیم کی مانگیں، آزادی ۔۔۔ اظہار کی مانگیں، آزادی۔۔۔۔۔
لگاتے نعرے کسی کو فوج کے خلاف لگے تو کسی کو جمعیت اور مذہب خطرے میں لگا۔ کسی کا اسلام خطرے میں تو کسی کو پاکستان کے خلاف بیرونی سازش لگی۔ کسی کو لگا یہ کیسے جاہل سٹوڈنٹس ہیں جو ایک آزاد، اسلامی اور مظبوط فوج کے ہوتے ہوئے آزادی مانگ رہے ہیں۔ کس سے آزادی مانگ رہے انڈیا سے ؟؟؟ امریکہ سے ؟؟؟ یاں اسرائیل سے ؟؟ کتنے بے قدرے لوگ ہیں۔
ہزاروں دماغ جیسے ایک دم وائبریشن پر لگ گے۔ سوال یہ ھے کہ کیا ان کے مطالبات غلط ہیں؟ اس منظم احتجاج کا اپنا تعلیمی حق مانگنا کیسے اسلام کے لیے خطرہ ہو گیا ؟؟ آزادی رائے سے یہ بچے فوج کے خلاف کیسے تصور کیے جانے لگے ؟؟ سٹوڈنٹس یونین کی بحالی کا مطالبہ کرنے والے کیسے اسلام اور جمعیت کے خلاف ہوگے ؟؟ اظہار کی آزادی مانگنے والے کیسے بے حیا اور امیروں کی اولاد اور انقلاب کے فیشن کے مارے تصور کیے جانے لگے ؟؟
ہم سے جو اپنا حق مانگتا ھے وہ ہمیں برا کیوں لگنے لگتا ھے ؟؟ جیسے بہن شادی کے بعد اگر زمین میں سے حصہ مانگ لے تو زمینداروں اور سرمایہ داروں کے بہت سے بھائیوں کی غیرت جاگ جاتی ھیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کو احسانات گنوائے جاتے ہیں اور ہر طرف سے طعنے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔
جب دماغ وائبریٹ کیا ھے تو کچھ سوال ہیں سوچنے کے لیے۔ سوچیے گا ضرور
(بشکریہ: حال حوال )
فیس بک کمینٹ