دسمبر کے آتے ہی عرش صدیقی پوری اردو دنیا میں یاد کیے جاتے ہیں کہ
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی
کپھا میں ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا ، شگوفے ٹہنیوں میں سورہے ہیں
اور ان پر برف کی چارد بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
توکیسے برف پگھلے گی؟
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
وہ دھند جو آنکھوں میں برف کے گالے اتارتی تھی تو عوام اندھے ہوجاتے تھے ، جواب جانتے ہوئے بھی سوال کرتے تھے کہ آخر کون ہے جو فیصلے کرنے پر اور پھر ان فیصلوں سے منحرف ہونے پر مجبور کرتا ہے؟کون ہے جس کے ہاتھ تو ہیں مگر چہرہ نہیں؟ سوچ تو ہے مگر عکس نہیں؟ تصور تو ہے مگر تصویر نہیں ؟ اب دسمبر سے پہلے سب واضح ہوچکاکہ مدت ملازمت میں توسیع جو ماضی میں دی جاتی رہی وہ کسی ایکٹ کا حصہ نہ تھی ، کہیں درج نہ تھی، تنخواہ تھی مگر طے نہ تھی اب دسمبر سے پہلے وہ برف بھی پگھل چکی جس کا پانی کتنے چہروں پر جمی گرد دھو چکا ۔ مدت ملازمت میں توسیع قانون کی تازہ ہوا کے جھونکوں کے سبب موسمی ملفوف سے نکل کرآئین کی چھتری کے سائے میں حلا ل انگڑائی لینے کو ہے ۔ ایک چیف کے صدقے کئی چیفس اب آئینی توسیع کی جھیل میں اشنان کرسکیں گے مگر ہمیں کیا کہ ہم دسمبر کے راس نہ آنے کا رونا روتے رہیں گے بقول محسن :۔
کئی سال گزرے
کئی سال بیتے
شب و روز کی گردشوں کا تسلسل
دل و جان میں سانسوں کی پرتیں الٹے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتے ہیں
مگر میں اک سال کی گود میں جا گتی صبح کو
بے کراں چاہتوں سے اٹی زندگی کی دعا دے کر
اب تک وہی جستجو کا سفر کررہا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسا بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
مرے ملنے والو
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح گر ہاتھ آئے
تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل دھڑکتا توہے مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں
دسمبر ، ہردسمبر کی طرح دھندلی صبح ، سرد شاموں اور میٹھی دھوپ کے ساتھ گزر جائے گا مگر ساتھ حسرت ناکام بھی لے جائے گا کہ وطن عزیز میں یہ سال اہل قلم ، اہل سخن ، اہل ہنر اور اہل شعور کے لئے زندان کی صورت گزرا ۔دسمبر سے ذرا پہلے اک امید جو دلائی گئی وہ بھی بر نہ آئی۔ اب دسمبر کا ماہ ہمیشہ کی طرح سرد مہر اور بے حسی کی دھند میں لپٹا ہوا پل پل گزرے گا۔ بقول دانیا ل عزیز:۔
تیس دن تک کسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
نئے سال میں پرانے چہروں سے نئی امیدیں وابستہ کی جائیں گی ، نئے دھوکے کھائے جائیں گے ، تازہ توقعات کے حصار میں آغاز سالِ نو ہوگا ۔
ہمارے حال پر رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر
گزرجاتا ہے سارا سال یوں تو
نہیں کٹتا مگر تنہا دسمبر
فیس بک کمینٹ