امروز ملتان کے سینئر صحافی حشمت وفا تھے جن کی وفات 11 جنوری 1979 کو ہوئی باون برس کی عمر میں ، منو بھائی نے ان پر ایک پرسوز کالم لکھا : حشمت وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو ۔
وہ کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے اس لئے کئی مرتبہ جیل میں گئے معطل ہوئے ٹریڈ یونین میں فعال کردار ادا کرتے تھے اب ان کی بیٹی راحت وفا ان پر ایک کتاب مرتب کر رہی ہیں ۔اس،نے پوچھا اس کتاب میں بطور مرتب میں اپنا نام لکھوں تو ساتھ کچھ اور بھی درج کرنا چاہیئے ۔راحت کے تین افسانوی مجموعے بارش میری سہیلی ، مور کے پاوں اور ہتھیلی پہ پانی ہیں ریڈیائی ڈراموں کے علاوہ کافی مقبول ناول بھی لکھ چکی ہیں گڑیا ، ایک تھی نیناں اور موم کی محبت۔
ایم اے اردو کرکے پڑھاتی بھی رہیں استعفی دینے سے پہلے وہ ملتان پبلک سکول /کالج کے گرلز ونگ میں تھیں ۔ان سے میں نے کہا وہ اپنے نام کے ساتھ بنت وفا لکھوائیں بس نامور مصنفہ وغیرہ کی ضرورت نہیں تو اس نے کہا انکل جب ایسا کرتی ہوں تو لوگ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں کہ تمہاری والدہ پانچ بچوں کے ساتھ بیوہ ہوئی تھیں اور پھر حشمت وفا سے ان کی شادی ہوئی ( پہلی بیگم سے ان کی علیحدگی ہوئی ) حالانکہ وہ ایک پڑھے لکھے نظریاتی آدمی کی طرح اپنے تمام بچوں سے محبت سے پیش آتے تھے اور انہیں لکھنے پڑھنے اور مشکلات میں آگے بڑھنے کی تلقین کرتے تھے مگر ہمارے سر سے یہ سائبان جلد ہی ہٹ گیا ۔
کچھ لکھنے سے پہلے میں نے مظہر عارف اور مسیح اللہ جامپوری سے رابطہ کیا راحت نے بھی رشید ارشد سلیمی سے جو انٹرویو لیا تھا وہ بھی مجھے بتایا گیا ۔پھر بھی میں نے چاہا ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کی اس اہم کتاب کا جائزہ لوں ‘ح ‘کی پٹی میں حشمت نام کے پانچ اہل قلم تھے مگر حشمت وفا نہیں تھے پھر میں نے’ و’ کی پٹی دیکھی جس میں سات وفا تھے مگر حشمت وفا نہیں تھے ظاہر ہے اکادمی ادبیات پاکستان ایک سرکاری ادارہ ہے جس نے یہ کتاب شائع کی وہ کیسے متحمل ہو سکتا تھا ملتان کے اس صحافی کے تذکرہ کا جو جیل جاتا تھا اور پولیس اس،کی ڈائریاں اور زیر مطالعہ کتابیں بھی اٹھا کے لے جاتی تھی وہ کوئی سجاد ظہیر تو تھا نہیں جس نے اپنی اہلیہ رضیہ سجاد کو جیل سے لکھا ” تم مسٹر آغا کوتوال کو ایک خط بھیج کر ان سے میری ان کتابوں کی واپسی کا مطالبہ کرو جو وہ تلاشی کے دن اٹھا لے گئے ۔۔۔۔ مہربانی کرکے تم پنڈت جواہر لال نہرو سے مل کر ان کی وہ کتاب واپس کر دینا جو میں اس،دن ان کے یہاں سے لے آیا تھا Light on Moscow اس،پر بادامی رنگ کا کاغذ چڑھا دیا تھا وہ میری لکھنے کی میز پر رکھی تھی ، ان کی دوسری کتاب لکھنو میں پڑی ہے کوئی جاتا ہوگا تو واپس ہو جائے گی میرا آداب بھی کہنا ” 23 مارچ 1940
فیس بک کمینٹ