صحافی اور صحافت کے معنی گزشتہ روز سمجھ میں آئےوہ بھی معروف صحافی اور کالم نگار مرحوم عرفان صدیقی کی وفات کے باعث۔۔مجھے خود پر بڑی عجیب سی حیرت بھی ہورہی ہے کہ پہلے کبھی اس طرح میں نے نہ سوچا اور نہ سمجھا۔اب جا کر سمجھ میں آیا کہ وفا صاحب کھدر پوش صحافی کیوں کہلاتے تھے؟ کیوں اوور ٹائم لگا کر بنا سواری کے امروز کے دفتر سے نواں شہر اپنے گھر تک پیدل آتے تھے۔۔ اور کیوں کرائے کے چھوٹے سے سیلن زدہ گھر میں رہتے تھے؟ کیوں انھوں نے زندگی کا آخری سفر بھی عوامی ٹرین کے عوامی ڈبے میں کیا تھا۔۔۔ کیوں ان کی وفات کے بعد بنک اکاؤنٹ صفر کے مترادف تھا؟ کیوں وقت کے بڑے شاعر نے ایسے ادبی طرز پر خراج تحسین پیش کیا تھا۔۔کیوں بڑے بڑے لکھاریوں نے ان کے لئے اشک آلود مضامین لکھے؟ کیوں اس وقت کے بڑے کالم نگار منو بھائی نے ملتان کو حشمت وفا کا شہر کہدیا؟ کیوں چاہنے والوں کا سیلاب نواں شہر امڈ آیا تھا؟ اور آخر کیوں بہت بڑا جنازہ نواں شہر سے حسن پروانہ قبرستان تک گیا تھا؟
ان کے پاس ، نہ دولت تھی نہ جائیداد تھی نہ گھمنڈ تھا نہ تکبر تھا نہ کسی کے تابع تھا اور نہ کسی کا محکوم۔تھا۔مرنے کے بعد پھر بھی مدتوں تعزیتی ریفرنس ہوتے رہے۔۔تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا لگا رہا۔۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ کھدرپوش صحافی کے گھر میں،ملازم ہیں نہ گاڑیاں کھڑی کرنے والا گیراج نہ ہی گھرمیں شاندار ڈرائینگ روم ہوگا اور ،نہ لوازمات سے بھری ٹرالی تواضع کے لئے ہوگی اس حقیقی صحافی کے جاننے والے ہر طبقے سے تعلق رکھتے تھے ان سب کو پتا تھا کہ سچا صحافی آزاد قلم بردار تھا ۔اس کے گھر میں بیوہ،بچوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ مگر بچوں کو۔جانے کے وقت یہ شعور نہیں تھا سمجھ نہیں تھی۔۔بس معصومیت تھی۔۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتا چلتا گیا کہ وہ حشمت وفانہیں تھا ۔بلکہ” حرف وفا کی حشمت تھا” اور بقول بیدل حیدری ۔ ۔ بجھ گئی شمع قلم دفتر دل کی بیدل، اب کسےقصرصحافت کا اجالا لکھوں ۔۔۔۔۔۔۔ہ

