آزادی صحافت اس زمانے کی اصطلاح ہے جب صحافت ایک ادارے کی صورت میں موجودتھی اور جب صحافت کو مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا ۔۔ پھر کچھ ایسے لوگ صحافت سے وابستہ ہوئے کہ تقدس والی بات ختم ہو گئی اور اسے صرف ” پیشہ “ بنا دیا گیا ۔اور پھر وہ زمانہ بھی آ گیا کہ صحافت ہی باقی نہ رہی اور صحافی بھی عنقا ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی آزادی صحافت کی اصطلاح بھی بے معنی ہوگئی۔اسی طرح انسانی حقوق کی بحالی کی جدوجہد بھی اسی زمانے میں زیب دیتی تھی جب لوگ اپنے حقوق سلب کیے جانے کا ادراک رکھتے تھے۔ اب تو حقوق سے پامال کیا جانا باعث توقیر اور بسا اوقات باعث اعزاز بھی سمجھا جاتا ہے۔
یہ سب باتیں میں صبح سے مسلسل سوچ رہا ہوں ۔اس وقت سے جب مجھے آئی اے رحمٰن کی رخصتی کی خبر ملی۔اس وقت سے جب میں نے ڈاکٹر انوار احمد کو تعزیت کے لیے فون کیا تووہ آزردگی سے کہہ رہے تھے رضی وفا اور استقامت پر یقین رکھنے والے قبیلے کے لوگ ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں اور وجاہت مسعود تو بلک بلک کر رو رہے تھے کہ ہمارے قبیلے کا سردار جو رخصت ہوا تھا ۔
آئی اے رحمٰن کی رحلت کی خبر سن کر پہلی سوچ جومیرے ذہن میں آئی یہی تھی کہ جب صحافت باقی نہیں رہی ،انسانی حقوق بھی قصہ ء پارینہ ٹھہرے تو پھر ان کے لیے جدوجہد کرنے والے آئی اے رحمان بھلا اس بے حس معاشرے میں کیوں رہتے ؟ اور جتنا عرصہ وہ یہاں جیئے اس تمام عرصے میں ان کے سا تھ اس معاشرے اور سماج کا مجموعی رویہ بھلا کیسا تھا ۔ ۔انہیں سرخا ہونے کا طعنہ دیاگیا ، روزگارسے محروم اور پابند سلاسل بھی کیاگیا، لیکن اس تمام عرصے میں ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
آج ہم میں سے بہت سے لوگ خودنمائی کے لیے اور اپنا قدبڑھانے کے لیے ان کے بارے میں جس تسلسل کے ساتھ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ ہمارے مجموعی مزاج کا آئینہ دار ہے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم جو انہیں اپنا استاد لکھ رہے ہیں ہم نے ان کی راہ پر چلنے کی کبھی کوشش بھی کی ؟ کیا ہم کسی زور آور کی آنکھوں میں اس طرح آنکھیں ڈال سکتے ہیں کیسے آئی اے رحمٰن ڈالتے تھے ؟ آئی اے رحمٰن کو استاد اور اپنا رہنما کہنے والوں میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہمیشہ حقوق غصب کرنے والوں کا ساتھ دیا۔ آزادی صحافت کی بجائے آزادیاں پامال کرنے والوں کے حق میں آواز بلند کی۔ہم جو سچ بولنے کادعوی کرتے ہیں ،ہم جو خود کو صحافی یا قلمکار سمجھتے ہیں،کیاہم میںیہ حوصلہ ہے کہ ہم کسی مظلوم کا اس طرح ساتھ دے سکیں جیسے آئی اے رحمٰن اور ان کے جرات مند بھتیجے راشد رحمٰن دیتے تھے ۔ ہم تو مغوی کی بجائے اغواء کنندہ کا ساتھ دینے والوں میں شمار ہوتے ہیں اور خود کو آئی اے رحمٰن کا پیروکار کہتے ہیں ۔ ایک سچے انسان کی یاد میں جھوٹ بولتے ہیں ۔