پی ٹی آئی میں اس وقت افراتفری مچی ہوئی ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے۔ امیدواروں کو ٹکٹوں کی اور قیادت کو ریحام خان کی کتاب کی پڑی ہوئی ہے۔ چلیں امیدواروں کی پریشانی اور افراتفری کی تو سمجھ آتی ہے کہ ہر حلقے میں چار چھ امیدوار ایک ٹکٹ کے طلب گار ہیں اور ظاہر ہے ایک حلقے سے صرف امیدوار کو ہی ٹکٹ ملنا ہے۔ باقی بچنے والے امیدواروں کا اگلے پانچ سال کوئی مستقبل نظر نہیں آتا‘ لیکن یہ قیادت کو کیا ہو گیا ہے؟ ایک کتاب پر اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان کی سیاست میں اندھے مقلد ووٹر بھلا کتاب پڑھتے ہی کب ہیں؟ اگر خدانخواستہ پڑھ بھی لیں تو متاثر کب ہوتے ہیں؟ ویسے بھی جو لوگ کتاب پڑھنے والے ہیں وہ ووٹ ڈالنے جاتے ہی کب ہیں؟ لے دے کے ایک آدھ فیصد ایسے بچتے ہیں جو کتاب بھی پڑھتے ہیں اور ووٹ بھی ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا جھوٹ اور سچ میں فرق کیونکر نہ جان سکیں گے؟ لیکن یہ سارے سوال اور دلائل کاغذ کالا کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ اگر ایسی کتابوں بارے ایک فقرے میں ساری کہانی بیان کی جائے تو وہ یہ ہے کہ ”بھلا کتابیں ووٹروں کا کیا بگاڑ سکتی ہیں؟‘‘
اگر کتابیں ووٹروں کا کچھ بگاڑ سکتیں تو اس عاجز کا خیال ہے کہ کم از کم پاکستانی سیاست میں ایک کتاب ضرور ایسی ہے جو کسی سیاستدان کا سارا سیاسی کیریئر برباد کر سکتی تھی اور وہ کتاب ہے "My Feudal Lord” (مینڈا سائیں)۔ یہ کتاب مصطفی کھر کی سابق اور میاں شہباز شریف کی موجودہ اہلیہ تہمینہ درانی نے تحریر کی ہے اور ملک غلام مصطفی کھر کے بارے بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے بارے میں بھی وہ کچھ لکھا ہے کہ اس کے بعد ہر دو افراد اس ”مشرقی معاشرے‘‘ میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل نہ رہتے مگر ”ایسا کچھ نہیں ہوا‘‘۔ تہمینہ درانی تو خیر سے غیر سیاسی خاتون ہیں؛ تاہم خادم اعلیٰ کے گھر کی زینت ہیں‘ لیکن مصطفی کھر اس عمر میں بھی سیاست فرما رہے ہیں اور مظفر گڑھ کے حلقہ این اے 181 سے پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ گو کہ ابھی ٹکٹوں کا فائنل فیصلہ نہیں ہوا مگر قرائن بتاتے ہیں کہ اس حلقے سے ٹکٹ مصطفی کھر کو ہی ملے گا۔ پی ٹی آئی والوں کو چاہئے کہ وہ ریحام خان کی آنے والی کتاب پر ایک پنجابی لفظ کے مطابق زیادہ ”کاکو رولا‘‘ نہ ڈالیں اور اس سلسلے میں فواد چودھری، عون چودھری و دیگر ناتجربہ کار (کتابوں کے بارے میں) لوگوں کو آگے کرنے کے بجائے مصطفی کھر سے رہنمائی لیں کہ ایسے معاملات میں ان کا تجربہ پی ٹی آئی کی موجودہ لاؤڈ سپیکر ٹیم سے کہیں زیادہ اور ثقہ ہے۔
ریحام خان عمران خان بارے زیادہ سے زیادہ کیا لکھ سکتی ہے؟ آپ اس سلسلے میں سوچ کا پنچھی جتنا چاہیں اڑا لیں اور خیال کا گھوڑا بے شک جتنا چاہیں بھگا لیں‘ میرا ذاتی خیال ہے کہ ریحام خان جتنی بھی کوشش کر لے عمران خان بارے اس کا عشر عشیر بھی نہیں لکھ سکتی جو تہمینہ درانی نے غلام مصطفیٰ کھر کے بارے میں لکھا تھا۔ ویسے بھی ریحام خان کے بہت سے الزامات (جواب تک میڈیا کے ذریعے تک پہنچے ہیں) اندازوں اور قیافوں پر مبنی ہیں‘ جبکہ تہمینہ درانی نے جو کچھ بھی لکھا وہ اس کے ذاتی تجربات پر مبنی تھا۔ ایسے واقعات جن کا وہ خود حصہ تھی۔ ایسی کہانی جس کا وہ بذات خود ایک کردار تھی اور ایسی کتاب جس میں اندازے نہیں، حقیقت کار فرما تھی۔
مینڈا سائیں سے صرف ایک صفحہ۔
”مصطفیٰ نے فون کیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ فی الفور۔ کہنے لگا کہ میں تمہاری طرف آ رہا ہوں۔ لیکن کیسے؟ انیس (تہمینہ درانی کا شوہر) گھر پر ہے۔ تم نہیں آ سکتے۔ فکر مت کرو۔ میں اسے گھر سے دفان کیے دیتا ہوں۔ چٹکی بجاتے میں۔
دو منٹ بعد فون بجا۔ گورنر ہاؤس سے فون تھا۔ انیس کے لیے۔ میں نے رسیور اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ سنتا اور سر ہلاتا اور ہوں ہوں کرتا رہا۔ اس نے رسیور واپس رکھ دیا۔ چہرے پر مسکراہٹ کھل رہی تھی۔ مجھے گورنر ہاؤس جانا ہے۔ مصطفیٰ مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔ گورنر کو مجھ سے کوئی بات کرنی ہے۔ وہ چلا گیا۔ اس قدر عجلت کے ساتھ جو زیب نہیں دیتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مصطفیٰ آ موجود ہوا۔ انیس کہاں ہے؟ میں نے سانس روک کر پوچھا۔ وہ تیر رہا ہے۔ مصطفیٰ نے شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
انیس گورنر ہاؤس پہنچا۔ مصطفیٰ نے اس سے ملاقات کی۔ پھر اس نے انیس سے کہا کہ وہ ذرا نہانے کے لیے تالاب میں ڈبکی لگائے کیونکہ اسے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔ انیس کو مصطفیٰ کے دوست رؤف خان نے نہانے کا جانگیہ دیا اور دھکیل کر تالاب میں اتار دیا۔ اس کا دل بڑھاتے رہے تا کہ وہ تیرتا ہی رہے۔ جب وہ باہر آتا رؤف اسے کھینچ کھانچ کر دوبارہ تالاب میں لے جاتا۔ وہاں وہ زبردستی ادھر سے ادھر تیرنے میں مشغول تھا۔ یہاں مصطفیٰ اور میں تھے۔ فون بجا۔ فون گورنر ہاؤس سے آیا تھا۔ جناب، ہم اب اسے زیادہ دیر پانی میں ٹھہرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ وہ گھٹن کے مارے بیہوش ہو جائے گا۔ اس کا جسم ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ اور وہ تنگ آ چکا ہے۔ پانچ منٹ بعد باہر نکال دینا۔ کہنا کہ میرا ابھی ابھی فون آیا تھا۔ میں پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ جاؤں گا۔ ہم بے رحمانہ انداز میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔‘‘
تہمینہ درانی کے ساتھ نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی چھوٹی بہن عدیلہ سے معاشقے اور تعلقات کا ذکر ایک لمبی کہانی ہے۔ جو مینڈا سائیں میں ”بے وفائی‘‘ کے نام سے لکھے گئے پورے باب پر مشتمل ہے۔ لیکن کیا یہ سب لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے صفحات کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ کسی کا ذہن تبدیل کر سکتے ہیں؟ لکھے پر یاد آیا۔ اشفاق احمد سے ان کی والدہ نے پوچھا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ اشفاق احمد نے انہیں بتایا کہ وہ لکھتا ہے۔ والدہ نے پوچھا کیا لکھتے ہو؟ اشفاق صاحب نے کہا کہ وہ سچ لکھتا ہے۔ ان کی والدہ نے کہا کس بارے سچ لکھتے ہو؟ اشفاق صاحب نے کہا کہ وہ لوگوں کے بارے میں سچ لکھتے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ نے کہا کہ دوسروں کے بارے میں لکھنا سچ نہیں۔ سچ اپنے بارے میں لکھا جائے تو سچ ہے۔ کیا کوئی اپنے بارے سچ بول رہا ہے؟
میاں نواز شریف صاحب پر آج کل سچ بولنے کا دورہ پڑا ہوا ہے اور وہ ایسے ایسے سچ بول رہے ہیں جو سب کو ایک عرصہ سے معلوم ہیں لیکن کیا یہی سچ ہے؟ میرا خیال ہے کہ سچائی کی اس بہتی ندی میں اب ان کو اپنے بارے میں بھی سچ بولنا چاہئے تاکہ سچ کا لفظ عزت دار بن سکے۔ وہ سچ بولیں کہ لندن میں فلیٹ کیسے خریدے گئے؟ قطری خط کس مہربان نے لے کر دیا؟ ڈان لیکس کے پیچھے اصل کردار کون تھا؟ لندن کی پراپرٹی کا اصل بے نام مالک کون ہے؟ فی الحال صرف یہی سچ درکار ہیں۔ رہ گئی بات لال سوہانرے کے 50 آرڈی ریسٹ ہاؤس کے شب و روز کی۔ دلشاد بیگم کی اور ایک گلوکارہ کی جسے طلاق ہو گئی تھی تو یہ ہماری مشرقی روایات کے منافی ہے کہ ان پر اصرار کیا جائے۔ حالانکہ یہ بات طے ہے کہ سیاستدانوں کی کوئی بات نجی اور ذاتی نہیں ہوتی۔ جب وہ سارا موج میلا عوام کے ٹیکس پر کرتے ہیں تو ان ٹیکس گزاروں کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس پر ہونے والے موج میلے کا پورا احوال جان سکیں۔
لیکن اگر یہ عوام سارا احوال جان بھی لیں گے تو کیا ہو گا؟ اگر کوئی کتاب لکھ بھی دی گئی تو کیا ہو گا؟ بھلا کتابیں ووٹروں کا کیا بگاڑ سکتی ہیں؟
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ