تاریخ تو مجھے یاد نہیں تاہم یہ اپریل کا مہینہ اور سال 1986ء تھا۔ میری شادی کو ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے‘ میں نے اپنے آفس میں آٹھ دس دن کی چھٹی کی درخواست دے دی۔ خواجہ ظفر اللہ میرے مارکیٹنگ منیجر تھے‘ انہوں نے خلافِ معمول نہ کوئی سوال کیا اور نہ ہی چھٹیاں کم کیں۔ میں نے آٹھ دس روز قبل اپنی شادی کیلئے محض ڈیڑھ دن کی چھٹی لی تھی۔ اور یہ ڈیڑھ چھٹی بھی لگاتار ڈیڑھ دن کی نہیں تھی۔ جمعہ کے روز میری بارات تھی اور تب جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی۔ میری اہلیہ ساری زندگی مجھے اس بات کا طعنہ دیتی رہی کہ آپ نے تو اپنی شادی کو بھی کل ڈیڑھ دن کے قابل سمجھا۔
جمعہ کے دن بارات تھی اور یہ میری ہفتہ وار چھٹی تھی۔ ہفتے کے دن چھٹی لی کہ اس روز ولیمہ تھا۔ اتوار کو صبح میں دفتر موجود تھا‘ آدھا دن کام کرنے کے بعد بقیہ نصف دن کی چھٹی لی اور اپنی بیگم کو واپس ملتان لانے کیلئے خانیوال روانہ ہو گیا۔ لہٰذا خواجہ صاحب نے جب دس روزکی چھٹی کی درخواست دیکھی تو ہنس کر منظور کرلی۔ ویسے بھی میری دوسال کی ساری چھٹیاں جمع پڑی تھیں۔ چھٹی کی منظوری دینے کے بعد مسکراتے ہوئے پوچھا: کدھر جا رہے ہو؟ میں نے کہا: سوات جانا ہے۔ ایک لمحے کیلئے وہ خاموش رہے پھر جھجکتے ہوئے کہنے لگے: کیا ایسا ممکن ہے کہ سوات جاتے ہوئے تم راستے میں اسلام آباد اور پھر مینگورہ میں دو کلائنٹس سے ملتے جاؤ؟ پھر تھوڑا کھسیا کر کہنے لگے: ملتان سے مینگورہ تک آنے جانے اور رہائش وغیرہ کا سارا خرچہ دفتر برداشت کرے گا۔ میں نے کہا: میری دو شرطیں ہیں اور وہ یہ کہ درمیان میں کوئی تیسرا کام نہیں بتایا جائے گا اور چھٹیوں کا دورانیہ مینگورہ میں کام ختم کرنے کے بعد شروع ہوگا۔ خواجہ صاحب نے قبول کیا اور دو دن بعد میں اپنی بیگم کے ساتھ ملتان سے روانہ ہو گیا۔
سوات میں ہمارا پہلا پڑاؤ مینگورہ تھا اور پھر وہاں سے بحرین۔ اپریل میں ابھی سیزن شروع نہیں ہوا تھا اور ہوٹلوں کے اکثر کمرے خالی تھے۔ تب بحرین بازار بڑا مختصر سا تھا اور آف سیزن ہونے کے باعث رش بھی نہیں تھا۔ ہم نے رہنے کیلئے بائیں طرف اوپر سے آ کر دریائے سوات میں مل جانے والے درال نالے کے پل کے ساتھ جڑے ہوئے آبشار ہوٹل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں‘ پہلی یہ کہ اس ہوٹل کی لوکیشن ہمیں بے حد پسند آ گئی تھی اور دوسری یہ کہ نہایت صاف ستھرا اور شاندار ہونے کے باوجود اس کا کرایہ خاصا معقول تھا۔
میں تقریباً آٹھ سال بعد سوات آیا تھا۔ ان آٹھ سالوں میں مینگورہ، مدین اور بحرین میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ صرف آبادی اور اس کے نتیجے میں دکانوں اور ہوٹلوں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہوا تھا مگر اس طرح بے تحاشا اور بے ہنگم پھیلاؤ اور تعمیرات نہیں ہوئی تھیں جتنی کہ چند سال بعد اچانک سے شروع ہوئیں اور پھر وہ تمام حدیں عبور کر گئیں۔درال خواڑ‘ درال ڈنڈ سے نکلتا ہے۔ آٹھ سال قبل جب دوستوں کے ساتھ ادھر آیا تو جھاگ اڑاتے، پتھروں سے ٹکراتے اور شور مچاتے ہوئے اس پہاڑی نالے نے گویا اپنا اسیر کر لیا۔ پتا چلا کہ اوپر پہاڑوں سے آ رہا ہے اور اس کا منبع ساڑھے گیارہ ہزارفٹ بلند درال ڈنڈ ہے۔ جانے کا قصد کیا تو مقامی گائیڈ کہنے لگا: نہ تو آپ کے پاس مناسب لباس ہے، نہ ہی اس ٹریکنگ کیلئے مطلوبہ جوتے ہیں اور نہ ہی کوئی مناسب ٹینٹ۔ یہ جو آپ سلیپنگ بیگ اٹھائے پھر رہے ہیں یہ اپنی عمر پوری کر چکا ہے۔ ہم نے اس گائیڈ کو بتایا کہ یہ نہایت اعلیٰ سلیپنگ بیگ ہے اور ہم نے اسے کئی سال پہلے ہنزہ میں ایک سیکنڈ ہینڈ سامان والی دکان سے خریدا تھا اور دکاندار نے اس کا جو شجرہ بیان کیا تھا وہ گو کہ ہمیں یاد نہیں مگر یہ کسی نہایت ہی نجیب الطرفین کوہ پیما ٹیم کے زیر استعمال رہا تھا۔ گائیڈنے جاتے جاتے کہا: مجھے اس کے خاندانی ہونے پر تو شک نہیں مگر اب مناسب وقت آ گیا ہے کہ اس خاندانی سلیپنگ بیگ کی تدفین کی رسم پوری کر دی جائے۔
درال ڈنڈ تک جانے کا خواب تو دل میں ہی رہ گیا۔ مگر درال خواڑ ایسا دل کو بھایا کہ آٹھ سال بعد جب اپنی بیگم کے ساتھ بحرین آیا تو درال کے کنارے آبشار ہوٹل میں ڈیرہ لگا لیا۔ صبح ناشتے کے وقت ہم کمرے میں ناشتہ منگوانے کے بجائے کمرے کے سامنے برآمدے میں کرسیاں رکھوا کر بیٹھ جاتے۔ برآمدہ کیا تھا‘ سمجھیں ایک بالکونی تھی جو کئی فٹ تک درال کے اوپر نکلی ہوئی تھی۔ دور سے اچھلتا، کودتا، اٹھکیلیاں کرتا ہوا پانی شور مچاتا اور جھاگ اڑاتا ہوا دکھائی پڑتا۔ یہ سارا منظر ایسا تھا جو صرف فلموں میں دکھائی دیتا ہے۔ رات دن پانی کا ایسا شور مچا رہتا کہ کان پہلے پہل تو بند ہوئے اور پھر اس شور کے عادی ہو گئے۔ میری اہلیہ ہوٹل میں گزرنے والا سارا وقت اس بالکونی نما برآمدے کی دیوار کے ساتھ کرسی بچھائے بیٹھی رہتی یا دیوار پرکہنیاں ٹکائے نیچے سے گزرتے پانی کو دیکھتی رہتی۔ بہتے پانی میں اور خاص طور پر اس طرح پُرشورانداز میں گزرنے والے پانی میں جو کشش ہوتی ہے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بیان کرنا ممکن نہیں۔
دو چار دن کے بعد ہم کالام چلے گئے۔ راستے میں ابھی سڑک کے کنارے برف اور اوپر سے سرکنے والے پتھر مٹی سمیت راستے کو مشکل بنائے ہوئے تھے۔ ہوٹل کے مقامی منیجر نے کہا کہ کالام جانے کیلئے کسی سوزوکی والے کی باتوں میں نہ آئیں کہ راستہ ابھی ایسا نہیں کہ یہ چھوٹی سی گاڑی راستے میں پڑی ہوئی اور پگھل کر آنے والی برف کے باعث اوپر سے آنے والے پتھروں اور کیچڑ کو محفوظ طریقے سے عبور کر سکے۔ آپ کو تھوڑی دقت تو ہوگی مگر آپ بس پر جائیں کہ اس سے راستے میں پھنسنے کا امکان کم سے کم ہوگا۔ مشورہ صائب تھا اور ہم نے اسے قبول کر لیا۔ سارا راستہ ہم اس مشورے کو سراہتے رہے۔
کالام تب کیسا خوبصورت تھا اب یہ مسافر صرف اس کا تصور ہی کر سکتا ہے۔ مختار مسعود صاحب نے ‘‘سفر نصیب‘‘ یا پھر ‘‘لوحِ ایام‘‘ میں (اب ٹھیک طرح یاد نہیں) بیروت میں شاہ کانسٹنٹائن کے زیر زمین آبی محل کے بارے میں لکھا تھا اور اس زیر زمین آبی محل کی ایسی منظر کشی کی کہ اس مسافر کے دل میں بھی اس جگہ جانے کی ہوک اٹھی مگر اپنی اسی تحریر میں مختار مسعود صاحب نے لکھا (الفاظ تو یاد نہیں تاہم مفہوم مکمل صحت کے ساتھ ذہن میں ہے) کہ چند سال بعد مسافر کو معلوم ہوا کہ لبنان میں ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں ہونے والے دھماکوں کے باعث وہ آبی محل بیٹھ گیا ہے۔ لیکن مسافر کو کوئی ملال نہیں، مسافر جب چاہتا ہے یادوں کا دریچہ وا کر کے جھانکتا ہے تو خود کو اس آبی محل میں محسوس کرتا ہے۔
گزشتہ سال شوکت گجر ‘جس کا اصرار ہے کہ اسے شوکت علی انجم لکھا جائے‘ کے ساتھ سوات گیا تو بحرین تک سڑک بہت بہتر ہو چکی تھی مگر راستے میں آنے والے قصبوں کے بازاروں نے وہی برا حال کر رکھا تھا جو ہمارا خاصہ ہے۔ مدین میں سڑک کے بائیں اور بحرین میں دائیں جانب بننے والی بے تحاشا دکانوں اور ہوٹلوں نے ایک ڈیڑھ کلو میٹر سے بھی زیادہ فاصلے تک دریا کو نظروں سے اوجھل کر کے رکھ دیا تھا۔ کالام میں اس سے بھی براحال تھا۔ 1978 ء میں کالام میں نیچے بازار کے نام پر چند دکانیں اور ایک مجید ہوٹل ہوتا تھا۔ 1986ء میں اوپر پہاڑی کگر کی طرف جاتے ہوئے لکڑی کا ایک چھوٹا سا ہوٹل ”فلک ناز‘‘ بن چکا تھا جس میں ٹھہرنے والے ہم اکلوتے مسافر تھے۔ (جاری )
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ