اللہ جانے کس حکیم نے یہ مشورہ دیا تھا کہ پاکستان میں چینی کی صنعت کو اتنا پھیلا دیا جائے کہ گنا ملک کی چوتھی بڑے فصل بن جائے اور ملک میں پچیس لاکھ ایکڑ زمین اس فصل کی نذر کر دی جائے۔ کولمبیا میں گنے کی فی ایکڑ (ایک ہیکٹر اڑھائی ایکڑ سے معمولی سا چھوٹا ہوتا ہے) پیداوار 85 ٹن ہے۔ یہ پیداوار ملکی اوسط کی بنیاد پر اخذ کی گئی ہے۔ اس حساب سے فی ایکڑ پیداوار 850 من فی ایکڑ بنتی ہے ‘جبکہ پاکستان میں یہ پیداوار48 ٹن فی ہیکٹر‘ یعنی 480 من فی ایکڑ بنتی ہے۔ یہ تو صرف وزن کا معاملہ ہے۔ گنے سے چینی کا حصول اصل چیز ہے‘ یعنی یہ کہ فی من گنے سے کتنی چینی حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ مقدار (پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ڈیٹا کے مطابق) 9.87 فیصد 2017ء ہے‘ یعنی ایک من گنے سے چار کلو گرام سے بھی کم چینی حاصل ہوئی۔ فی ایکڑ پیداوار کی کمی سے کہیں زیادہ اہم چیز گنے سے چینی کا فی من حصول ہے۔ تھائی لینڈ‘ جزائر غرب الہند‘ کولمبیا اور برازیل وغیرہ میں یہ مقدار13 سے 14 فیصد ہے‘ یعنی وہاں ایک من گنے میں سے ساڑھے پانچ کلو گرام سے زیادہ چینی نکلتی ہے۔ یہ سارا آب و ہوا کا کمال ہے۔
گنا پورے سال کی فصل ہے اور اسے مرطوب آب و ہوا راس آتا ہے۔ زیادہ پانی کی ضرورت ہے‘ اس میں مٹھاس کی شرح‘ یعنی Sucrose لیول بھی آب و ہوا کا مرہون ِمنت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جزائر غرب الہند‘ بارباڈوس‘ تھائی لینڈ اور برازیل وغیرہ‘ جو خط استوا یا اس کے گرد و نواح میں ہیں‘ گنے کی فصل کیلئے موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم ایک ایکڑ کے حساب سے گنے کی فصل اور چینی کے حصول کا حساب کریں تو پاکستان میں گنے کی فی ایکڑ اوسط پیداوار کے عوض حاصل ہونے والی چینی کی مقدار ساڑھے انیس سو کلو گرام‘ یعنی 50 من سے بھی کم ‘ہے جبکہ جزائر غرب الہند اور وسطی و جنوبی امریکا میں یہ مقدار اپنی فی ایکڑ اوسط پیداوار اور اس میں سے چینی کے حصول کی زائد شرح فیصد کے باعث 120 من کے لگ بھگ ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں گے‘ ہمارے ہاں ایک ایکڑ گنے کی فصل سے پچاس من اور درج بالا علاقوں میں ایک سو بیس من چینی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان کی آب و ہوا اس فصل کیلئے قطعاً موزوں نہیں ہے اور دوسری یہ کہ ہم نے گنے کی فصل کی اچھی اقسام پر نہ تو کام کیا اور نہ ہی اس طرف وہ توجہ دی‘ جس کی ضرورت تھی۔
گنا پاکستان میں دو موسموں میں کاشت ہوتا ہے۔ ستمبر اور فروری میں۔ ستمبر میں کاشت کم‘ جبکہ فروری میں زیادہ ہوتی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گنے کی کٹائی مارچ ‘اپریل تک جاری رہتی ہے اور نئی کاشت یا پرانی کٹائی والی فصل کے دوبارہ اگنے کا مقررہ وقت گزر جاتا ہے‘ نتیجتاً اس کا سارا اثر پیداوار پر پڑتا ہے۔ گنا سارے سال کی فصل ہے‘ یعنی اسے کم از کم ایک سال چاہئے۔ ستمبر والا گنا تقریباً ڈیڑھ سال لیتا ہے۔ اس فصل سے چینی کے حصول کی شرح فیصد ضرور بڑھ جاتی ہے‘ مگر فصل کی مدت زیادہ ہونے کے باعث یہ کاشت زیادہ مقبول نہیں۔ گنے کو بے تحاشا پانی چاہئے۔ اس کی جڑ میں ہمیشہ نمی رہنی چاہئے۔ اس حوالے سے پاکستان میں گنے کی فصل کیلئے مئی‘ جون‘ جولائی اور اگست بڑے برے مہینے ہیں۔ ان چار ماہ میں پانی کی کمی کی وجہ سے گنے میں رس اور اسی تناسب سے مٹھاس کی جو کمی ہوتی ہے‘ وہ کسی صورت میں پوری نہیں ہو سکتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری فصل کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے اور اس سے چینی کا حصول بھی۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے‘ جس کی وجہ سے میں نے یہ لکھا تھا کہ پاکستان میں گنے کی فصل لگانے کا مشورہ کس حکیم نے دیا تھا؟
میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد یہ دیکھا کہ پا کستان میں گنے کی کاشت کے لیے ”زوننگ‘‘ کا اطلاق تھا‘ یعنی کچھ علاقے گنے کی کاشت کیلئے مخصوص تھے اور ان علاقوں کے علاوہ گنے کی کاشت ممنوع تھی اور ان علاقوں میں شوگر مل بھی نہیں لگائی جا سکتی تھی‘ پھر یوں ہوا کہ قانون سازی کرنے والے شوگر بزنس میں آ گئے یا شوگر کا بزنس کرنے والے حکومت میں آ گئے‘ بات ایک ہی ہے ‘لیکن اس کا نتیجہ بہت ہی برا نکلا۔ زوننگ ختم ہو گئی۔ کپاس کے علاقے میں گنا کاشت ہونے لگ گیا۔ اس کی ابتدا تو میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے کی اور سارے ”ٹبر‘‘ نے شوگر ملیں لگا لیں‘ پھر یوں کیا کہ برطانیہ کے غیر تحریری آئین کی طرح یہ بات طے کر دی کہ صرف اسے شوگر مل لگانے کی اجازت ملے گی‘ جو مشینری اتفاق فاؤنڈری سے بنوائے گا‘ لہٰذا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہیں مل‘ اتفاق گروپ کی تھی اور کہیں مل کی مشینری۔ دونوں طرح سے پیسہ سمیٹا گیا۔ پہلے یہ کام صرف پرانے کاروباری لوگ کرتے تھے۔ دیوان گروپ‘ منوں گروپ‘ کریسنٹ گروپ‘ باوانی خاندان‘ فیکٹو گروپ وغیرہ‘ پھر آ گئے میاں نواز شریف گروپ‘ چوہدری شجاعت گروپ اور زرداری المعروف اومنی گروپ وغیرہ۔ پنجاب میں تو سیاستدانوں نے شوگر ملیں خود سے لگائیں‘ زرداری صاحب نے شارٹ کٹ نکالا اور لگی لگائی شوگر ملیں اونے پونے ہتھیا لیں۔ اسی دوران جہانگیر ترین بھی اس کاروبار میں آ گئے اور انہوں نے اسے بڑے کارپوریٹ انداز میں چلایا اور ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے گنے کی کاشت میں بھی خود سے آ گئے۔ ٹھیکے پر لی گئی ہزاروں ایکڑ اراضی پر اپنے لیے گنا کاشت کیا اور اس کاروبار میں نفع حاصل کرنے کے حوالے سے شاید سب سے آگے چلے گئے کہ گنا بھی اپنا تھا اور مل بھی۔
خط استوا پر واقع ممالک گنے کی فصل کیلئے موزوں ترین تھے۔ تقریباً ہر روز دوپہر کے بعد ہونے والی بارش گنے کی جڑ کو کبھی خشک نہیں ہونے دیتی اور اس بنیادی وجہ کے باعث گنے کی فصل کی پیداوار بھی بہت ہوتی ہے ا ور اس میں مٹھاس کی مقدار بھی۔ ہمارے ہاں بھی دریائے سندھ کے کنارے کاشت ہونے والی گنے کی فصل ‘ملک کے دیگر علاقوں میں کاشت ہونے والی گنے کی فصل کی نسبت بہت اچھی ہوتی ہے اور چینی کا حصول ‘یعنی ”شوگر ریکوری‘‘ بھی بہت بہتر ہے‘ بھرپور سیزن میں 12 فیصد سے بھی زائد‘ اسی طرح سندھ کے ضلع بدین اور ٹھٹھہ میں بھی گنے کی فصل اور ریکوری بہت بہتر ہے‘ لیکن وسطی اور بالائی پنجاب میں خراب ترین نتائج۔ صورتحال یہ ہے کہ پانی کی شدید کمی کے باعث گنے کی فصل ویسے بھی ہمارے لیے موزوں نہیں رہی۔ بارش سے کمی پوری ہو سکتی تھی‘ لیکن ادھر بارش کی اوسط بھی خط استوا کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کپاس کی کاشت کے حوالے سے چند سال پہلے تک پاکستان کا سب سے بڑا ضلع رحیم یار خان سارے کا سارا گنے کی فصل پر منتقل ہو چکا ہے۔ اس میں زیادہ حصہ جہانگیر ترین کا ہے کہ ادھر زیادہ تر شو گر ملز انہی کی ہیں‘ تاہم اس خرابے میں بھی جہانگیر ترین ان مل مالکوں میں سے ‘جنہوں نے کاشتکار کو پیسے بھی پورے دیے اور بروقت بھی‘ باقی صورتحال یہ ہے کہ ملز مالکان گنے کے کاشتکار کے پچھلے سال کے 16 ارب روپے دبا رکھے ہیں۔ گنے کا کاشتکار رو رہا ہے کہ اس کا استحصال ہو رہا ہے اور مل مالک رو رہا ہے کہ گنے کی امدادی قیمت اور مارکیٹ میں چینی کی قیمت کے حوالے سے ان کا خرچہ بھی پورا نہیں ہو رہا اور وہ نقصان میں ہیں۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور اس کی وجہ وہی ایک ہے کہ دونوں غلط کام میں لگے ہوئے ہیں۔ گنا یہاں میرا مطلب ہے پاکستان میں کاشت ہی نہیں ہونا چاہئے اور انہی وجوہات کی بنیاد پر اتنی ملیں بھی ہونی چاہئیں تھیں۔ اس سارے کام کی ابتدا ہی درست نہیں تھی۔
اس وقت ملک میں 85 کے لگ بھگ شوگر ملز ہیں۔ پنجاب میں تو گنا خواہ اس کی ادائیگی اگلے سال ہی کیوں نہ ہو180 روپے فی من خرید ہوتا رہا ہے‘ لیکن سندھ میں تو 130 روپے فی من تک کی ادھار والی ادائیگی کے لارے پر کاشتکار کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس وقت گنے کی فی من کٹائی کا خرچہ 20 سے 22 روپے ‘ لوڈنگ وغیرہ ڈال کر یہ خرچہ 35روپے فی من اور مل تک پہنچانے کا خرچہ 40 روپے من (یہ کھپت اور مل کے فاصلے کے حساب سے کم زیادہ ہو سکتا ہے)‘ یعنی 70‘75 روپے فی من کا خرچہ ہے۔ باقی110 روپے کاشتکار کو ملتے ہیں‘ بلکہ ملتے بھی کہاں ہیں؟ ملنے کا وعدہ ملتا ہے۔ 16 ارب روپے ابھی گزشتہ سال کے بقایا ہیں۔ ملیں بند ہیں۔ کاشتکار دھرنے دے رہا ہے۔ حکمران بے فکر ہیں اور ہم بچپن سے سن اور پڑھ رہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ