ممتاز مفتی لکھتے ہیں : ”کھلی شخصیت حلوائی کی دکان کی طرح ہوتی ہے سارا مال باہر تھالوں میں لگا ہوتا ہے“ ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک ہیں وہ سادہ اور کھرے انسان لگتے ہیں منافقت سے پاک وہ روایتی سیاستدانوں کی طرح مکار نہیں ہیں، ان کی باتیں سن کر بعض اوقات حیرت بھی ہوتی ہے وہ کھلے ڈلھے انداز میں دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ ہمارے کون سے ایسے وزیراعظم ہوئے جو گھاگ قسم کے کئی اینکروں کو ایک ساتھ انٹرویو دیتے رہے ہیں، ایک بھی ایسا وزیراعظم نہیں تھا البتہ پرویز مشرف بھی اکیلے ہی پریس کانفرنسوں میں بغیر کسی وزیر مشیر کے صحافیوں کا سامنا کرتے تھے۔ گزشتہ دنوں عمران خان نے کئی اینکرز کا بیک وقت سامنا کیا اور ان کے مشکل سوالوں کے جوابات دیئے، اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق عمران خان نے ہر سوال کا جواب مدلل انداز میں دیا، وہ ہر جگہ تقریر بھی فی البدیہہ کرتے ہیں اگرچہ کبھی کبھی لکھ کر بات ہونی چاہئے کہ اس طرح جچے تلے انداز میں انسان مافی الضمیر بیان کر سکتا ہے۔
عمران خان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک ہی قسم کی تقریر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ ملک و قوم کے مسائل پر اپنا واضح موقف رکھتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنا محاسبہ خود کر لے قانون اور میرٹ کا خیال رکھا جائے تو ہماری ساری مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان سے روایتی سیاستدان جن کا ماٹو ہی یہی ہے ”جھوٹ سیاست دی پہلی سیڑھی ہے“ اور ورہ سیاست صرف اپنے اور اپنے خاندان کو خوشحال کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اس راہ میں ان کے لئے کوئی کام ناجائز ہی نہیں، قانون کو وہ موم کی ناک قرار دے کے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کرتے ہیں اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ سیاست بھی کاروبار بن کر رہ گئی ہے اقتدار کا مقصد ”خدمت“ نہیں بلکہ ”مال بنانا“ اور اقربا پروری پر عمل پیرا ہونا ہے۔ گزشتہ تیس برسوں سے دو پارٹیوں کی حکومت نے باری باری اپنے مفادات کو ہمیشہ مدنظر رکھا اب تیسری پارٹی وجود میں آئی ہے اور جس کا سربراہ کمپلکس فری انسان ہے جو سیاست میں آیا ہی اس لئے ہے کہ اس ملک اور قوم کی حالت تبدیل کر سکے۔ وہ خود کرپٹ نہیں ہیں مگر بدقمستی سے انہیں کوئی زیادہ اچھی ٹیم میسر نہیں آئی۔ وہ خود تو سادہ زندگی اور قناعت کو پسند کرتے ہیں مگر ان کے وزراءابھی اپنی پرانی ”روش“ اور ”پھوں پھاں“ (پروٹوکول) سے آزاد نہیں ہوئے، اب اگر وزیراعظم کو بھی ڈالر کا ریٹ ٹی وی خبروں سے پتہ چلے تو یہ کس دا قصور ہے؟ اب تک ان کو زیادہ بہتر شیر میسر نہیں آئے، نجانے انہیں سگریٹ پر ”گناہ ٹیکس“ لگانے کا مشورہ کس نے دیا ہے، ٹیکس ضرور لگائیں مگر کیا آپ کے پاس اس ٹیکس کے لئے موزوں نام تک نہیں؟
کیا سگریٹ نوشی ایسا ”گناہ“ ہے جو ٹیکس ادا کرکے کیا جا سکتا ہے؟؟ اس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ ٹیکس دے کے ”گناہ“ کرتے رہیں، پھر تو باقی اعمال جو واقعتاً اسلام میں گناہ کے زمرے میں آتے ہیں ان پر بھی کوئی ٹیکس لگا کر جاری رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔
عوام کے ریلیف کے لئے تو فی الوقت کچھ زیادہ اقدامات نہیں کیے گئے، عام لوگوں کا تو چلنا پھرنا بھی دشوار ہو گیا ہے، پنجاب کے دل لاہور کے ٹریفک کا برا حال ہے۔ آج صبح ملتان روڈ سے ٹھوکر نیاز بیگ آنے کے لئے گھنٹوں میں خود ٹریفک میں پھنسا رہا۔ بڑے بڑے ٹرکوں، ٹرالوں اور بسوں کے درمیان رینگتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ شاید سڑک کشادہ ہو رہی ہے اس لئے اس قدر دباؤہے، مگر جب دو گھنٹے کے بعد ٹھوکر نیاز بیگ بس سٹینڈ پر پہنچا تو پولیس ناکے سے ذرا پہلے کسانوں کی ٹرالیاں سڑک پر نظر آئیں، انہوں نے سڑک بلاک کر رکھی تھی۔ اور عوام کا حشر نشر ہو رہا تھا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ شتر بے مہار کی طرح ہر کوئی ایک دوسرے میں الجھا ہوا تھا مت پوچھیں کس طرح موٹروے کے راستے سے رائے ونڈ روڈ کی سمت آ کر گھر پہنچا۔ تادم تحریر (رات ساڑھے بارہ بجے) کسانوں نے دھرنا جاری رکھا ہوا ہے اور سڑکوں پر بستر لگا لئے ہیں، ملتان کی طرف سے شہر میں داخل ہونے کا یہ واحد راستہ ہے جو دوسرے روز بھی بند ہے اندازہ لگائیں کہ عام آدمی کس اذیت اور عذاب سے دوچار ہے۔ یوں لگتا ہے پنجاب میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، جس وقت ہم ٹریفک میں پھنسے ہوئے تھے وزیراعظم چیف جسٹس اور دیگر مقتدر شخصیات ایک کانفرنس میں شریک تھیں، اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرنا سب کا حق ہے مگر جس کا جی چاہے دوچار ٹرالیاں ہائی وے سڑک پر کھڑی کر کے راستے بند کردینا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے جسے ختم کرنا حکومت کا اولین فرض ہے۔ کوئی بھی سڑک دس منٹ تک بند ہو جائے توں طویل قطاریں لگ جاتی ہیں ٹریفک سنبھالے نہیں سنبھلتی ہر شخص جلدی میں ہے اور تیزی سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ ایسے میں یکطرفہ سڑک پر بھی گاڑیوں کی تین چار طویل قطاریں بن جاتی ہیں ایسے میں کوئی ٹریفک اہلکار دکھائی نہیں دیتا۔
دھرنے احتجاج کے لئے کسی بھی سڑک کو بند کرنے پر سخت سے سخت سزا دینے کا اعلان کیا جائے اور سڑکیں بلاک کرن والوں کو نشان عبرت بنایا جائے، مطالبات کے لئے عوام کی زندگی اجیرن بنانا گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”راستوں میں مت بیٹھو“ گویا راستہ کھلا رکھو تاکہ آنے جانے والوں کو تکلیف نہ ہو، ہمارے ہاں ہر احتجاجی طبقہ فوراً سب سے پہلے سڑکیں بلاک کرتا ہے تاکہ لوگ حرکت نہ کر سکیں، ایسے میں ٹریفک وبال جان کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اگر ہمارے دین میں عوام الناس کو تکلیف نہ دینے کی تلقین کی گئی ہے تو اس پر عمل کرانا حکومت کا کام ہے اس سے قبل تحریک لبیک کے احتجاج نے تین روز کاروبار حیات معطل رکھا، اب اگر کسان اپنے مطالبات کے لئے ہائی وے کو بلاک کئے ہوئے ہیں، احتجاج کرنا ان کا حق ہے مگر دوسروں کے حقوق پامال کرنا بھی جرم ہے۔
پنجاب حکومت احتجاج اور دھرنوں کے لئے جگہیں مخصوص کرے اور عام شاہراہوں پر تو ٹریفک روکنا سخت جرم قرار دیا جائے، ایسے لولوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، ٹھوکر نیاز بیگ کی سڑک پر کسانوں کا دھرنا کہیں اور شفٹ کیا جائے، اور سڑک کو فی الفور کھولا جائے، اس طرح تو ہر طبقہ سڑک بلاک کر کے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرے گا، بعض معاملات میں حکومت کو سختی کرنی پڑتی ہے اور خیر کے لئے شر کے خلاف رویہ سخت ہونا چاہئے۔ کاش کسی ایسی صورتحال میں ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی شخص ایسے ٹریفک میں پھنسے تو اسے اندازہ ہو کہ عوام روڈ بلاک ہونے پر کس اذیت سے دوچار ہوتے ہیں عثمان بزدار کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہئے اور سڑکیں بلاک کرنے والوں کے یا تو تمام مطالبات فی الفور مان لینے چاہئیں تاکہ سڑکیں کھل سکیں یا پھر دھرنا نوں دوسری جگہ شفٹ کرنے کا بندوبست کرنا چاہئے ورنہ ”بزداری“ حکومت جو پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے مزید تنقید کا نشانہ بنتی رہے گی۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ