وہ جنسی ہراسگی کا ہی case نہیں تھا بلکہ جنسی ہراسگی کے مقدمہ میں باپ کی گرفتاری تھی۔۔ ضلع ملتان کی پولیس کے سربراہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران بار بار اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر اس جان سوز مقدمہ کی روداد سنا رہے تھے اور پورا میڈیا ان کی طرف متوجہ تھا اور مقدمہ کی تفتیش و تحقیق میں مزید باریک بینی کا طلب گار تھا ۔۔ مگر پولیس سربراہ نے دو ٹوک انداز میں اپنی تحقیقی ٹیم کی ستائش میں چند مزید جملے بول کر اپنی سگی بیٹی کے جنسی ہراسگی کیس میں ملزم پختہ عمر کے باپ کو جب میڈیا کے روبرو پیش کیا تو اس نے بیچارگی کے عالم میں میڈیا والوں کی طرف دیکھا ہاتھ جوڑ دیئے اور وہ بمشکل اپنے آنسوؤں کو قابو کرتے ہوئے اپنے دفاع میں محض ایک ہی ٹوٹا پھوٹا جملہ بول سکا کہ
"مجھ پر کوئی سا اور سنگین الزام تھوپ دو ۔۔
لیکن میری سگی بیٹی کے ساتھ جنسی ہراسگی کا الزام واپس لے لو۔۔
اس جملہ نے میڈیا کو چونکا دیا ۔۔ لیکن ۔۔ کوئی سوال جواب ہوتا تو کچھ پتا چلتا ۔۔ اس ملزم باپ کو فوری طور پر میڈیا سے دور کردیا گیا ۔۔
یہ پریس کانفرنس 1990ء کے آخری مہینے یا جنوری 1991ء کی تھی ۔۔
موسم یخ بستہ تھا ۔۔ لیکن پولیس کے سربراہ کی آدھ گھنٹہ کی پریس کانفرنس میں ظالم یا مظلوم باپ کے ایک جملے نے میڈیا کو نیا رخ دے دیا تھا۔۔
اگلے روز کے اخبارات میں بیٹی پر جنسی ہراسگی کے اس مقدمہ کی روداد پولیس افسر کی پریس کانفرنس اور نامزد ملزم کے باپ کے مؤقف کو بھی جگہ دی گئی تھی
لیکن ۔۔ روز نامہ جنگ لاہور میں شائع ہونیوالی ملتان بیورو کی اس لرزہ خیز الزام والی پریس کانفرنس کی خبر یوں تہلکہ خیز ثابت ہوئی تھی کہ بیورو چیف استاد محترم خان رضوانی نے اس خبر کے انٹرو میں ہی اعلیٰ پولیس افسر کی پریس کانفرنس کی لرزہ خیزی کو ملزم باپ کے مؤقف کے ساتھ یوں پیش کیا تھا کہ پولیس کے اس انسانیت سوز مقدمہ ایف آئی آر میں مزید تحقیق کا تقاضہ کردیا
۔۔اور۔۔ شام تک اس حوالے سے اطلاع بھی موصول ہو گئی کہ بیٹی پر جنسی ہراسگی کے اس مقدمہ کی مزید تفتیش کیلئے پنجاب پولیس کی لاہور سے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی گئی اور اس ٹیم کی تشکیل میں روزنامہ جنگ کی تحقیقی رپورٹنگ کا خاص طور پر ذکر بھی کیا گیا تھا ۔۔ استاد محترم خان رضوانی سے بھی دوران تفتیش سوال جواب کیے گئے کہ انہوں نے کس طرح ایک” ظالم "باپ کو ایک "مظلوم” باپ بنا کر اپنی خبر میں پیش کیا ۔۔
خان صاحب کا موقف یہی رہا کہ انہوں نے پریس کانفرنس میں پولیس افسر کے گھناؤنے سنگین الزام کو ظالم یا مظلوم باپ کے مؤقف کے ساتھ اپنی خبر کے ابتدائیہ میں پیش کرنے کی "جسارت ” کی ہے ۔۔ یہ ان کی خواہش پر مبنی خبر نہیں بلکہ اس پریس کانفرنس کے سنسنی خیز مگر آلودہ ماحول کا عکس ہے۔۔ جس کی تحقیق کرنا اب لاہور کی خصوصی ٹیم کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ مشن ہونا چاہیئے
بہرحال مہینوں جاری رہنے والی اس تہلکہ خیز خبر میں مزید تحقیقات نے "مظلوم ” باپ کو "ظالم ” نہ رہنے دیا ۔۔ اور ۔۔ بعد میں ایف آئی آر میں درج ضمنی کارروائی کو بھی اہمیت دی گئی ۔۔
استاد محترم خان رضوانی صاحب کی جس تحقیقاتی خبر کا حوالہ دیا گیا ہے اس پریس کانفرنس میں ۔ میں خود بھی موجود تھا۔۔ اور ۔۔ ان دنوں میں زکریا یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بطور اپرینٹس اعزازی رپورٹر روز نامہ جنگ ملتان بیورو میں زیر تربیت تھا۔۔
۔۔ چند برسوں کے بعد 90 ءکی دہائی کے آخر میں جب مجھے روز نامہ نوائے وقت میں کورٹ رپورٹر کی ذمہ داری سونپی گئی تو جنسی ہراسگی کے ہر زیر سماعت مقدمہ کی عدالتی پیشرفت میں استاد محترم کی تحقیقاتی صحافت کا اسلوب ہمیشہ تازہ ہوتا رہا ۔۔
آج جب استاد محترم خان رضوانی کی 30 ویں برسی گذر گئی ہے ۔۔ ڈیجیٹل میڈیا کی چکا چوند روشنی میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کئی نئے صحافتی رموز متعارف ہو چکے ہیں لیکن استاد محترم خان رضوانی کی درخشندہ صحافتی اقدار پر مبنی تحقیقاتی رپورٹنگ آج بھی مشعل راہ ہے۔۔
استاد محترم خان رضوانی ۔۔ آپ کی صحافت آج بھی قابل تقلید ہے۔۔
فیس بک کمینٹ