برصغیر پاک وہندمیں ،کمپنی بہادر کی تجارت کے نام پر جھوٹ بولنے کی تاریخ سے کون واقف نہیں ہے۔تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے، اس میں کوئی تمغہ اورتعلق کام نہیں آتا۔ ماضی میں حکومت وقت کی طرف سے، حق کی لڑائی کو ’’غدر‘‘ قرار دے بھی دیا جائے، پھر بھی آنے والی نسلوں کے لیے ،وہ ’’تحریک آزادی‘‘ ہی رہتی ہے۔ برطانوی کپڑا بیچنے کے لیے، ہندوستانی ہنرمندوں کے ہاتھوں کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ کپڑا نہ بُن سکیں، کیونکہ اس کپڑے کا معیار بہت اعلیٰ تھا، جس کی وجہ سے انگلستان کے بنے ہوئے کپڑے کی فروخت ناممکن تھی۔
ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا، لیکن ایسا کیوں لگتا ہے کہ کمپنی بہادر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ انگوٹھے کاٹنے کی روایت برقرار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے، توجہ کا مرکز کپڑے کی تجارت نہیں، شعروادب، ثقافت ونصاب اور کتاب کا کاروبار ہے۔ وہی ہم ہیں اور وہی کمپنی بہادر، اُن وقتوں میں، وہ ایسٹ انڈیا کمپنی تھی، آج اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس،کراچی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں، اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس،کراچی کے تحت، 8 برس سے ’’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ رواں برس بھی یہ ادبی میلہ منعقد ہوا۔ ابتدائی کچھ سال بہت اچھے تھے،یہ میں نے پہلے بھی لکھ،اب بھی لکھ رہا ہوں، لیکن باقاعدہ بات شروع کرنے سے پہلے ، قارئین کو یہ بتا دوں، کراچی لٹریچر فیسٹیول یا ادبی تماشے کے اس موضوع پر کئی برسوں سے، میں اپنی ذہنی توانائی صرف کر رہا ہوں، اب یہ اس قدر عامیانہ ہو گیا ہے کہ اس پر لکھنا بھی ایک اذیت ناک عمل ہے، لہٰذا اس موضوع پر، میری آخری تحریر ہے۔ اپنے حصے کی روشنی تقسیم کر دی، اب ادب کی تاریکیاں اپنے فیصلے خود کریں گی۔ فیسٹیول انتظامیہ کے دیے گئے کتابچے میں درج فخریہ معلومات اور بعد میں جاری کی جانے والی پریس ریلیز کے مطابق، خلاصہ یہ ہے ’’پہلی مرتبہ جب یہ میلہ منعقد کیا گیا تھا، تب اس میں شرکا کی تعداد پانچ سے دس ہزار تک تھی، آٹھویں برس تک آتے آتے وہ دو لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے،پاکستان میں ادب سے محبت کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ‘‘شرح تناسب کی بلندی کا پیمانہ، شرکا کی تعداد تک محدود نہیں، بلکہ سپانسرز میں بھی مالامال ہے۔ فیسٹیول کے بک فیئر میں، کتابوں کے سٹال لگانے والوں سے کرایے کی مد میں معاوضہ الگ ہے۔
فیسٹیول انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستانی اوربین الاقوامی قلم کاروں کے ساتھ مل کر مطالعے کے فروغ کے لیے (پاکستانی اورغیرملکی اداروں سے پیسے لے کر) کوشاں ہیں۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، سوئزرلینڈ، فرانس اور انڈین سفارت خانوں کی معاونت بھی حاصل ہے۔برطانیہ کے اپنے ذیلی ادارے بشمول، بی بی سی اردو سروس، برٹش کونسل بھی مددگار ہیں۔ تشہیر کے تناظر میں، امدادی کمک کے طور پر، پاکستان کے تمام بڑے ٹیلی وژن اوراخبارات بھی شامل ہیں۔ حیرت کا مقام دیکھیے، ان تمام وسائل کے باوجود ، رواں برس کراچی لٹریچر فیسٹیول کو، مغرب سے ایک بھی ’’خالص ادیب‘‘ میسر نہ آ سکا، جبکہ دوسری طرف فیسٹیول انتظامیہ نے ہی اپنے کتابچے میں یہ خبر دی ہے کہ قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے پر، لندن میں بھی ’’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا۔ اب ظاہر ہے یہ تو ہونا تھا، کیونکہ جے پور لٹریچر فیسٹیول ، جس کی نقالی میں یہ ادبی میلہ شروع ہوا، وہ بھی جے پور سے خود کو نکال کر ہزاروں میل دور ایک دوسری جگہ ’’ملبورن۔آسڑیلیا‘‘ لے جایا گیا، تو یہ کیوں نہ جائیں۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بدقسمتی ہے کہ وہ 8 برسوں میں بھی خود کو جے پور لٹریچر فیسٹیول کے فارمیٹ سے باہر نہ نکال سکا۔
جے پور لٹریچر فیسٹیول میں آخری برس میں ’’مدرانڈیا‘‘ جیسی فلم کو موضوع بنایا گیا۔ فلم ساز کرن جوہر نے جعلی جمہوریت اور مصنوعی آزادی اظہار رائے پر روشنی ڈالی۔ پاکستان میں گزشتہ برس،پابندی کا شکار ہونے والی فلم ’’مالک‘‘ موضوع نہیں بن سکتی تھی، جے پور فلمی میلے سمیت دیگر کئی فلمی میلوں کا حصہ بننے والی، آسکر کے لیے نامزد فلم ’’ماہِ میر‘‘ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا موضوع نہیں ہو سکتا تھا؟ ان دونوں فلموں کے فلم ساز، کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، دونوں فلموں کی عکس بندی بھی کراچی میں ہی ہوئی۔ فلموں کے ایک سیشن ’’سینمااکراس دی باڈرز‘‘ میں معروف اداکار ’’مصطفیٰ قریشی‘‘ نے جس طرح پاک بھارت فلمسازی پر بات کی، بھارت کے منفی رویوں کو بیان کیا، وہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ فیسٹیول انتظامیہ کے تعارفی کتابچے کے مطابق،رواں برس 194 شخصیات، فیسٹیول میں بحیثیت سکالر اور فنکار حصہ تھے، مگر کوئی ایک بھی فکشن نگار یعنی ناول، افسانہ یا کہانی لکھنے والا مغربی ادیب نہیں تھا۔ 6 ملکوں کے سفارت خانوں کی مدد بھی کام نہ آئی۔ کل 24 غیرملکی شخصیات کا تعارف کتابچے میں شامل ہے، جس میں سے ایک تو بنگلہ دیشی اداکارہ ’’شبنم‘‘ ہیں، ان کے بعد 10 تو صرف انڈین ہیں ۔ پاکستانی اداکار فواد خان اور ماہرہ خان،دونوں اپنی حال ہی میں ریلیز ہونے والی انڈین فلموں کی تشہیر تک کے لیے ، انڈیا نہ جا سکے۔ ماضی قریب میں دو پاکستانی سفارت کار،جن کی پوسٹنگ انڈیا میں ہی تھی، وہ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں جانا چاہتے تھے، انہیں انڈین حکومت سے اجازت نہ ملی، مگر یہاں پاکستان میں، ماضی کے علاوہ، رواں برس بھی، ایک دو چار نہیں، دس انڈین نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی، جس میں، پاکستان میں تعینات، انڈین ہائی کمشنر بھی شامل ہیں۔انڈین ہائی کمشنر’’گوتم بھمباوالے‘‘ نے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں جو گفتگو کی، وہ سونے پر سہاگہ ہے۔ انہوں نے فیسٹیول کے پہلے روز، سفارت کاروں والے سیشن میں ،پاکستانیوں کو یہ نصیحت بھی کی کہ انڈیا ہمارا دوست بننا چاہتا ہے مگر ہمیں دہشت گردی کی سرپرستی ختم کرنا ہو گی۔ پاکستانی میڈیا کی اکثریت خاموش رہی، سوائے ’ڈان ‘ کے، البتہ اگلے ہی دن، ہندوستان میں، یہ خبر ہندوستان ٹائمز سمیت متعدد اخبارات کی زینت بن گئی۔ انڈینز کے بعد،باقی بچے 14غیرملکی ،تو اس میں سکالرز کے علاوہ، پاکستان میں مقیم سفارت کاروں سمیت ملا کر، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نان فکشن کے کچھ قلم کاروں کی ہے، مگر یاد رہے ،یہ لٹریچر فیسٹیول ہے، سفارت کاری، تعمیرات، معاشرتی علوم، فلم اور موسیقی کا کوئی فیسٹیول نہیں، لیکن تمام تر وسائل کے باوجود خالص ادب ندارد تھا۔ مزید کیا کہا جائے۔ لطف کی بات یہ ہے ، پاکستان اور دیار غیر میں مقیم اردو اور انگریزی زبان کے پاکستانی سکالرز کی تعداد کو بھی جمع کیا جائے، تو فیسٹیول کے 194 میں بمشکل 50 نام ایسے ہیں، جن کو خالص ادیب وشاعر کہا جا سکتا ہے، مگر معیار کے پیمانے پر پورے نہیں اترے، مثال کے طور پر فیسٹیول انتظامیہ کے تحت منعقد ہونے والے مشاعرے میں برسوں سے مخصوص شعرا کے نام دکھائی دیتے ہیں، اس سے فیسٹیول انتظامیہ کی ذہنی حالت اورجمود کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، پاکستان میں ان 20 شعرا کے علاوہ 8 برسوں میں کوئی شاعری نہیں کر رہا؟ یا ان سے پہلے کوئی شاعر نہیں ہے؟ جواب سب جانتے ہیں۔ فیسٹیول میں کتب کے سٹالز لگانے والوں کے مطابق، یہاں کتب میلہ لگانے پر جو خرچہ آیا، وہی بڑی مشکل سے پورا ہو پایا۔ حیرت ہے ،گزشتہ برس پونے دو لاکھ شرکا تھے، اس بار بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، جس رفتار سے تناسب بڑھا ہے،اس برس دو لاکھ شرکا نے تو شرکت کی ہو گی، اگر آدھے لوگ صرف ایک کتاب بھی خریدتے تو کیا ایک لاکھ کتابیں فروخت نہ ہوتیں اور کیا کتابوں کے سٹالز لگانے والوں کے پیسے پورے نہ ہوتے؟ تو کتب بینی اور مطالعے کا فروغ کیسے ہو گیا؟ صرف شرکا کی تعداد تو اس بات کی ضمانت نہیں ہے۔سوال موجود ہے،جواب ندارد۔
فیسٹیول انتظامیہ کو کوئی شک ہے،تو کتب کی خریداری کے اعدادوشمار بھی بتائے ،جس طرح شرکا کی تعداد فخر سے بتائی جاتی ہے۔اسی طرح بڑی تعداد میں شرکا کا پہلو ادب کی خدمت کی ضمانت نہیں ،کراچی میں ہی گزشتہ دنوں فوڈ فیسٹیول ہوا، اس میں بھی کھوئے سے کھوا چھل رہا تھا،قدم رکھنے کی جگہ نہ تھی چڑیاگھر، سفاری پارک، چائے کیفے خانوں، ہوٹلوں، سب جگہ رش ہوتا ہے، مگر وہ ادب کی خدمت کا دعویٰ نہیں کرتے، اس لیے ان پر کوئی بات بھی نہیں کی جاتی۔ آپ بھی لٹریچر کا لفظ نکال دیں ،پھر جو مرضی کرتے رہیں۔ ادب کے کوٹے پر کوئی اورمنجن فروخت کرنے کی کوشش تو نہ کاروباری طورسے مثبت بات ہے اور نہ ہی علمی خدمت
فیس بک کمینٹ