14 فروری 1920ء کو مہتہ ضلع امرتسر میں پیدا ہونے والے محمد صادق کو کیا معلوم تھا کہ جب اُن کی زندگی کا سفر تمام ہو گا تو ہزاروں لوگ اُنہیں لالہء صحرائی کے نام سے جانتے ہوں گے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ محبت کے عالمی دن پہ پیدا ہونے والے لالہ صحرائی نے جب ادب کے میدان میں قدم رکھا تو اُن کا محبوب وہی شخصیت ٹھہری جو محبوبِ ربِ کائنات ہے۔ یہ بات مَیں نے یونہی نہیں لکھی اس کے پس منظر میں بھی ایک ایسا واقعہ موجود ہے جو پڑھا جائے تو یقین نہیں آتا۔ اگر وہی واقعہ سنا جائے یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی دلچسپ کہانی ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب اُنہوں نے زندگی کے ستر برس گزار لیے اور گزرے برسوں میں انہوں نے طنز و مزاح، تنقید، خاکے، افسانے، انشائیے، ڈرامے، سفرنامے، تبصرے، دیباچے اور تجزیے تو لکھے لیکن شعری میدان سے دور رہے۔ نثر نگار کے طور پر وہ اپنی پہچان اُردو ادب میں بنا چکے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے ڈاکٹر جاوید احمد صادق سے اپنی نعت گوئی کا تذکرہ کیا۔ اُن دنوں ڈاکٹر جاوید احمد صادق طائف میں مقیم تھے۔ فرمانبردار بیٹے نے اپنے والدِ محترم سے گزارش کی کہ وہ اپنی کچھ نعتیں طائف کے پتے پر روانہ کریں۔ یہ بات کہہ کر ڈاکٹر جاوید احمد صادق بھول گئے۔ پھر ایک دن کیا ہوا بذریعہ ڈاکٹر اُن کے پاس والدِ محترم لالہء صحرائی کا ایک خط ملا۔ یہ زمانہ 1991ء کا تھا جب ڈاک کے لفافے پر ہر شہر کی بڑی نمایاں مہر ثبت کی جاتی تھی۔ ڈاکٹر جاوید احمد صادق نے اپنے والد کی طرف سے آیا ہوا لفافہ دیکھا تو دیکھ کر حیران ہو گئے کہ معلوم نہیں طائف کے پتے والا خط پہلے مدینہ منورہ کیسے پہنچا؟ اور مدینے سے ہوتا ہوا طائف ڈاکٹر جاوید احمد صادق کے ہاتھ لگا تو لفافے کو دیکھتے ہی اُنہوں نے اپنے والد محترم کو فون کیا اور بتایا کہ آپ نے 70 برس بعد نعت کے میدان میں قدم رکھا تو اس کی قبولیت یوں ہوئی کہ طائف کے پتے پر روانہ کیا جانے والا خط پہلے مدینہ منورہ کے ڈاک خانے پہنچا اور پھر طائف کے ڈاک خانہ والوں نے تقسم کیا۔ یہ سنتے ہی لالہء صحرائی نے سوچا کہ ساری زندگی نثر کے میدان میں طبع آزمائی کی اگر رسولِ رحمت کو میری نعت گوئی کا انتظار تھا تو اب صرف مَیں نعت ہی لکھوں گا اور نعت ہی سناؤں گا۔
عجیب نسخہ ملا ہے قرارِ جاں کا مجھے
مَیں نعت کہنے لگا جب بھی بےقرار ہوا
یہ واقعہ کئی مرتبہ ہم نے لالہء صحرائی کے بیٹوں کی زبانی سنا۔ اور اس کے بعد پھر ایک دن لالہء صحرائی سے کتاب نگر پر ملاقات ہو گئی۔ اُن کو وہاں پر جناب حسین سحر نے زحمت دی تھی جو انہی دنوں ان کی کتاب لالہ زارِ نعت کی اشاعت کر رہے تھے۔ وعدے کے پابند لالہء صحرائی طے شدہ وقت پر میرے ہاں پہنچے، اپنا تعارف کروایا اور کہنے لگے مجھے جناب حسین سحر نے یہاں آنے کا کہا تھا کیا وہ آئے نہیں؟ مَیں نے کہا وہ آنے ہی والے ہیں اور کچھ ہی دیر میں جب حسین سحر آئے تو انہوں نے لالہء صحرائی کو رحمت علی انصاری (نامور خوشنویس) کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ نعت پیش کیا۔ اور اس کے بعد کچھ دیر تک وہ آنے والی کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ مَیں نے اُنہیں چائے پلائی، کہنے لگے شوگر کی وجہ سے آج کل طبیعت ٹھیک نہیں ہے کوشش کریں کہ چائے پھیکی ہی ہو۔ اس مختصر سی ملاقات کے بعد اُن سے ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو اُن کی وفات (7جولائی 2000ء) تک جاری رہا۔ نمازِ جنازہ اُن کے آبائی شہر جہانیاں کے ایک وسیع و عریض میدان میں ادا کی گئی۔ اس موقع پر مجیب الرحمن شامی، ڈاکٹر عاصی کرنالی اور دیگر احباب نے جو اُن کے بارے اظہارِ خیال کیا اُس سے اُن کی شخصیت کے مزید دَر وا ہوئے۔ لالہء صحرائی کے 15 سے زیادہ نعتیہ مجموعے منظر عام پر آئے اور اُن کے کچھ نعتیہ مجموعوں کو صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا لیکن اس کے باوجود اُن کے اندر جو انکساری تھی وہی اُن کی شاعری میں دکھائی دیتی۔ اُنہوں نے جہانیاں جیسے چھوٹے سے شہر میں رہ کر اپنی تحریروں کے ذریعے نامور لوگوں تک رسائی حاصل کی۔ مجھے یاد ہے جناب لالہ صحرائی کی پہلی برسی پر لاہور سے احمد ندیم قاسمی، حفیظ تائب اور منصورہ احمد تشریف لائیں۔ اس موقع پر حال ہی میں انتقال کر جانے والے نامور نعت خواں سیّد منظور الکونین نے اُن کی نعتیں پڑھ کے سماں باندھ دیا۔ ملتان آرٹس کونسل کا ہال اُن کے چاہنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر احمد ندیم قاسمی کا خطاب خاصے کی چیز تھا۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹوں ڈاکٹر جاوید احمد صادق اور ڈاکٹر نوید احمد صادق نے اُن کی کتابوں کو اُسی انداز سے شائع کرایا جس طرح وہ اپنی زندگی میں دلچسپی لیتے تھے۔ کچھ عرصہ قبل اُن کے فن اور شخصیت پر ایک کتاب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے ترتیب دی۔ چند ماہ قبل تذکرہ لالہء صحرائی کے نام سے دوسری کتاب ڈاکٹر محمد جاوید اصغر نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ساتھ مل کر شائع کرائی۔ حال ہی میں اُن کا نثری مجموعہ ڈاکٹر زاہرہ نثار نے نگارشاتِ لالہء صحرائی کے نام سے مرتب کیا۔ جس میں اُن کی تمام نثری تخلیقات محفوظ کر دی گئیں۔ اور چند دنوں تک اُن کا شعری کلیات بھی شائع ہونے والا ہے جس میں اُن کی تمام حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو محفوظ کیا گیا ہے۔ لالہ صحرائی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے تمام غزواتِ نبوی کو منظوم شکل میں کہا اور پھر غزواتِ رحمت اللعالمین کے نام سے انہوں نے کتاب کو شائع کروایا۔ وہ کہا کرتے تھے :
نعت کہنے سے سکوں ملتا ہے مجھ کو ورنہ
تیری مدحت کو فقط تیرا خدا کافی ہے
انہوں نے زندگی کے آخری دو عشرے حمد و نعت کہنے میں گزارے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کہی ہوئی ہر حمد و نعت کو کتابی صورت میں محفوظ کیا۔ اُن کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹوں نے بھی چار شعری مجموعے شائع کروائے۔ اور وہ تمام مجموعے اُن کے چاروں بیٹے اپنے اپنے احباب کو تقسیم کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ وہ نہ صرف اہلِ ملتان کے لیے ایک قابلِ قدر سرمایہ تھے بلکہ اُردو کے نعتیہ ادب کا فخر۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کو قرآن پاک کے پیغام کی طرح ڈھالا ہوا تھا۔ لالہء صحرائی کے انتقال کے بعد اُن کے بچوں نے اپنی اپنی جگہ اُن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ جب بھی اُن سے ملاقات ہو وہ دنیا کی باتیں کرتے کرتے اپنے دیندار والد کا لازمی ذکر کرتے ہیں خاص طور ڈاکٹر نوید احمد صادق اور ڈاکٹر جاوید احمد صادق نے اپنے آپ کو اپنے والد کی یادوں کے حوالے سے وقف کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کو ہم سے بچھڑے 16 برس سے زیادہ ہو گئے لیکن اُن کے نگارشات گاہے گاہے کتابی صورت میں ہم تک پہنچتی رہتی ہیں کہ اُن کے بچوں کا یہ عہد ہے کہ لالہ صحرائی کا پیغام گھر گھر میں پہنچے اس کوشش میں وہ نہ صرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ ہر نئے دن اُن کے ذہن میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ لالہء صحرائی کے حوالے سے کچھ نیا کام کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ ایسی سعادت مند اولاد ہر شخص کے نصیب میں کرے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)