اختصارئےرضی الدین رضیلکھاری

لہو لہو لاہور ، ویلنٹائن ڈے اور تابوتوں پر گلاب ۔۔ رضی الدین رضی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس حوالے سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے پروگراموں کی نشریات روکنے کا حکم صادر کیا تو ہمیں خدشہ تھا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو عوام اسی طرح ہوا میں اُڑا دیں گے جیسے عموماً حکمران اُڑاتے ہیں ۔ شام کو لاہور میں ہونے والے دھماکے نے اس فیصلے پر عمل درآمد بھی کرا دیا اور ہم یہ بھی نہ کہہ سکے کہ فیصلے کرانے والے ان پر عمل درآمد کرانا بھی جانتے ہیں ۔ اور یہ بھی نہ سوچ سکے کہ  ریاست کے فیصلوں پر ا ن کی اصل روح کے مطابق عمل کیا یا کرایا جاتا ہے ۔ بات سیدھی ہے کہ محبت اور نفرت کے پھیلاؤ میں جیت سر دست تو نفرت کی ہو رہی ہے ۔ لاہور لہو لہو ہو گیا تو الزامات کی جنگ بھی شروع ہو گئی ۔ لاشوں پر پوائنٹ سکور کرنا ہمارا معمول ہے ۔ معلوم ہوا کہ سکیورٹی کے ذمہ داروں نے تو سات فروری کو ہی بتا دیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہو گا ۔ اور جب کچھ نہ کچھ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے تو پھر کچھ نہ کچھ ہوتا بھی ہے ۔ اب یہ کہنا بے معنی ہے کہ تاجر دھرنا نہ دیتے تو شائد یہ المیہ نہ ہوتا یا حکومت ان کے مطالبے پہلے مان لیتی تو موت ٹل جاتی ۔ الزام تراشی کا یہ وقت نہیں ۔ کچھ باتوں پر غور کیا جانا چاہیئےپہلی بات تو یہی کہ رانا ثناءاللہ جیسے وزراء کی موجودگی میں ہم حکومت سے یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کی کمر توڑے گی ہاں اس دھماکے کے بعد پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی جیسے مطالبات پر غور کرنے کا جواز بہر حال پیدا ہو گیا ہے ۔پی ایس ایل وجہ ہے یا لاہور لٹریری فیسٹیول ؟ یہ سوال بھی بے معنی نہیں ہے ۔ بہت سے معاملات بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پاناما کیس ، سندھ کے معاملات ، شکنجے کی باتیں ، اور اس کے ساتھ ساتھ دبئی میں ہونے والی ملاقاتیں ۔ مردم شماری کے عمل میں تیزی آ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں نئی حلقہ بندیاں بھی ہوں گی ۔حکمران جماعت سمیت بہت سی سیاسی جماعتیں عملی طور پر انتخابی مہم شروع کر چکی ہیں ۔ باخبر سمجھے جانے والے بقراط بار بار انتخابات کی بات کرتے ہیں تو ہم ہنس دیتے ہیں ۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ جمہوری عمل متاثر نہ ہو لیکن شائد بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں اور آپ کو علم ہی نہیں کہ جنہوں نے بساط بچھا رکھی ہے انہی کو معلوم ہے کہ مہرے نے کب حرکت میں آنا ہے ۔ ہم جس دہشت گردی کو کوستے ہیں ممکن ہے وہی ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے ضروری ہو ۔ ہم کم علم لوگ ہیں ہمیں کیا معلوم کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری ۔ ہم تو اپنی کم علمی کی بنا پر ممتاز قادری کو بھی قاتل کہتے ہیں ۔ چھوڑیں یہ سب حساس موضوعات ہیں اور وہ جو عقابی نظر رکھتے ہیں وہی جانتے ہیں کہ جوانوں میں عقابی روح کیوں بیدار ہو رہی ہے ۔ ہم نے تو یہ چند غیر ضروری سطور ان غیر ضروری لوگوں کی یاد میں تحریر کی ہیں جو سڑکوں پر تڑپنے اور خاک و خون میں غلطاں ہونے کے لئے اس دھرتی پر آئے ہیں ۔ اور انہی میں سے بہت سوں کو ویلنٹائن ڈے سے ایک روز قبل گلابوں کے سپرد کر دیا گیا کہ ابھی تو موت اور زندگی کی جنگ اور نفرت و محبت کی جنگ میں نفرت ہی کامیاب و کامران دکھائی دے رہی ہے ۔ ہم کم علم لوگوں کو کیا معلوم سلامتی کے معاملات کیا ہوتے ہیں ۔ ہم تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فیصلے کرانے والے ا ن پر عمل درآمد کرانا بھی جانتے ہیں ۔ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ آج ویلنٹائن ڈے پر لہو لہو لاہور میں کچھ تابوت ہوں گے ۔کچھ نئی قبریں ہوں گی اور ان پر گلاب ہوں گے ۔

فیس بک کمینٹ

متعلقہ تحریریں

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker