ڈرگ ایکٹ کے خلاف میڈیکل سٹور مالکان کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کے دوران لاہور کی معروف شاہراہ مال روڈ پر ہولناک دھماکے میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین ، ایس ایس پی زاہد گوندل اور کانسٹیبل سمیت ابتدائی اطلاعات کے مطابق 14افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔ پاکستان میں بم دھماکوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع اور شہریوں کا عمر بھر کیلئے معذور ہونا کوئی نئی بات نہیں آپریشن ضرب عضب کے نتیجہ میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی تو ضرور ہوئی ہے مگر یہ ختم نہیں ہو سکے۔ تمام تر حکومتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دعووں کے باوجود دہشت گرد جب اور جہاں چاہتے ہیں کوئی نہ کوئی واردات کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلا دیتے ہیں۔ دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کی ہر سطح پر مذمت کی گئی اور کی جاتی رہے گی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا ذمہ دار کون ہے:؟
ایک زمانہ تھا جب کوئی باہر سے آتا تو شہر کی دیواروں پر حکیموں کے اشتہار دیکھ کر سوچتا تھا کہ شاید یہاں کے سب مرد بیمار ہیں اب چوک اور شاہراہیں دیکھ کر کہتا ہے کہ پوری قوم احتجاج پر ہے۔ ہمارے ہاں بات بات پر احتجاج کرنا سڑکیں بلاک کر کے نظام زندگی مفلوج کرنا وطیرہ بن چکا ہے۔ جس گروپ اور جتھے کے پاس 15 یا 20 آدمی بلکہ افراد ہوں وہ جب اور جہاں چاہے بلاخوف وخطر ایک ٹائر جلا کر شاہراہیں بند کر دیتا ہے اور اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں ہوتا۔ کسی بھی شعبہ میں کوئی قانون نافذ کرنا یا اصلاحات کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔ بات بات پر احتجاج کرنا اور نظام کو مفلوج کرنا ہماری عادت ہے۔ کسی ڈاکٹر کی غفلت سے کسی مریض کی جان چلی جانے پر کارروائی کی جائے تو ڈاکٹر احتجاج کر دیتے ہیں۔ پیرامیڈیکل سٹاف ڈاکٹرزکی بات نہ مانے ان کے خلاف کارروائی ہو تو پیرامیڈیکل سٹاف ہسپتال بند کر دیتا ہے۔ سکول ٹیچرز کے خلاف غیر حاضری پر کارروائی ہو تو سکول بند، رشوت لینے پر پٹواری کو پکڑا جائے تو محکمہ مال کا نظام درہم برہم، کلرک کی فرائض سے غفلت برتنے پر باز پرس ہو تو وہ دفاتر کو تالے لگا دیتے ہیں ۔ اوورلوڈنگ اور اوورچارجنگ پر ٹرانسپورٹرز کو پوچھنا بھی منع ہے، تجاوزات مافیا کیخلاف کارروائی ممکن نہیں ۔
حکومت جس سے بھی باز پرس کرے وہی مظلوم بن جاتا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ہم اپنی ہر بات احتجاج سے منوانے اور حکمران احتجاج کرنے کے بعد ماننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور میں ہونے والے افسوسناک سانحے کا ذمہ دار کون ہے؟ میڈیکل سٹور مالکان یا حکومت؟؟؟ اس احتجاج کے بعد شاید میڈیکل سٹور مالکان کے مطالبات تو تسلیم ہو جائیں مگر کیا ہم ان شہدا کو واپس لا سکیں گے جو اس واقعہ میں جان سے گئے ہیں۔ مظاہرین کو اس واقعے سے بے شک کچھ نہ ملا ہو مگر جن ملک دشمن عناصر نے اپنے مقاصد حاصل کرنے تھے کر لئے اور شاید اب لاہور پی ایس ایل کا فائنل بھی خواب ہی رہے گا ۔ خیر جہاں ہمارے اتنے خواب بے تعبیر ہوئے ایک یہ بھی سہی ۔ میں تو صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں اور بلند آواز سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ حکمرانو ۔۔ میڈیکل سٹور والو بے گناہوں کا یہ خون کس کے سر جائے گا ؟
فیس بک کمینٹ