کئی برس پہلے، وہ یادگار شام تھی، جب میرے گلوکار دوست جاوید بشیر کراچی تشریف لائے، ان سے ملنے کی مشتاق، مجھ سمیت کراچی کی معروف ادیبہ فاطمہ حسن بھی تھیں، طے یہ ہوا، ہم سب رات کے کھانے پر ملیں گے، اس بہانے کچھ اور دوست بھی ساتھ مل بیٹھیں گے۔ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے کئی اور دوست اکٹھے ہوئے، میری زندگی میں وہ شام اس لیے یادگار بن گئی، کیونکہ ہم سب کے درمیان اس شام کو سب سے اہم شخصیت ’’مشتاق احمد یوسفی‘‘ تھی، جن سے خاصی دیر گفتگو رہی، میں نے ان کو یاد دلایا کہ کئی برس پہلے، جب میں طالب علم تھا، تب بھی آپ سے ایک نجی جامعہ میں، چائے پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا، جس میں ہم نے خاصی گفتگوکی تھی، وہ ملاقات تو انہیں یادنہ آئی، مگر جاوید بشیر کے وقت جو ملاقات ہوئی، اس کو وہ نہ بھولے، کیونکہ اس کے بعد میں ان کے گھر بھی گیا، تو بہت محبت سے پیش آئے اور مجھے پہچان بھی لیا، وہ صرف بڑے قلم کار ہی نہیں، آدمی بھی بڑے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں ہم نے ہمیشہ سنا، وہ بہت مقبول قلم کار رہے ہیں، ان کو بہت سارے ادبی اور سرکاری اعزازات بھی دیے جاچکے ہیں۔ ان کی چار کتابیں بالترتیب شایع ہوئیں، جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زر گزشت اور آب گم شامل ہیں، ان تمام کتابوں کو بہت پسند کیا گیا۔ ادبی حلقوں میں ان کی بے حد پذیرائی ہوئی، البتہ جب خود ہوش سنبھالا، پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو جب بھی ان کی مقبولیت برقرار تھی، جس پر حیرت ہوئی، اس قدر طویل عرصے تک کوئی قلم کار کس طرح اپنی مقبولیت قائم رکھ سکتا ہے، اسی کھوج میں ان کی ساری کتابیں بھی پڑھ ڈالیں، جس میں سے آدھی اس زمانے میں ہمارے اوپر سے گزر گئیں، بیتتے وقت کے ساتھ ہم نے ان کے حروف کی باریک بینی اور تہہ در تہہ معنویت کو دریافت کیا۔ 2014 میں، کراچی آرٹس کونسل کی طرف سے عالمی اردو کانفرنس میں ان کی نام نہاد نئی کتاب ’’شام شعر یاراں‘‘ کو لانچ کرنے کے بارے میں خبر ہوئی، تو بہت حیر ت ہوئی۔ یہ کتاب ابھی قارئین کے ہاتھوں میں نہیں آئی تھی، کچھ دنوں بعد اس کو باقاعدہ عالمی اردو کانفرنس میں لانچ کیا جانا تھا۔ میں نے اس معاملے میں تھوڑی چھان بین کی، یوسفی صاحب سے ان کے گھر جا کر ملاقات کی، اس معاملے پر ان کاموقف بھی حاصل کیا، جس سے یہ اندازہ ہوا، کتاب یوسفی صاحب کی باقاعدہ لکھی ہوئی نہیں تھی، بلکہ ان کی متروک تحریروں کوجمع کرکے اسے کتاب کی شکل دے دی گئی تھی، جس پر یوسفی صاحب نے اپنا احتجاج اس طرح ریکارڈ کروایا کہ وہ اس کتاب کی تقریب میں شامل تو ہوئے، مگر اس پر ایک لفظ تک نہیں بولا۔ مزید اس معاملے کی تفصیل سمجھنے کے لیے اس وقت ڈان اردوکی ویب سائٹ پر لکھا گیا میرا مضمون پڑھا جا سکتا ہے۔
’’شام شعریاراں‘‘ کی اشاعت کے بعد یوسفی صاحب پر کافی دباؤ آیا، ادبی اورصحافتی حلقوں میں ان پر تنقید کی گئی، لیکن میری مندرجہ بالاتحریر کے شایع ہونے کے بعد ماحول ان کے حق میں سازگار ہوا۔ ناقدین کو اندازہ ہواکہ یہ معاملہ کوئی اور ہے، اس میں یوسفی صاحب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہاں سے اندازہ کیجیے، یوسفی صاحب نے اتنی بڑی ناانصافی پر بھی اُف تک نہ کی۔ میں نے جب ان کے گھر پر ملاقات کی، تو بہت مزے کا جملہ کہا کہ ’’جب لیٹے لیٹے مزا آنے لگے، تو سمجھو بڑھاپا آگیا۔‘‘ وہ زندگی کے آخری سانس تک اپنے مزاج کی شگفتگی اور لطافت پر قائم رہے۔ انہوں نے کبھی کسی سے شکوہ نہ کیا، جبکہ انہوں نے ایک بہت محنت کرنے والی زندگی گزاری، مگر قارئین کی محبت نے ان کو اس جدوجہد کا ثمر لوٹا دیا۔ وہ تمام عمر جدوجہد کے اصولوں پر کار بند رہے، ان کی تحریروں میں طنز کہیں نہیں تھا، وہ ہمیشہ مزاح کے پیرائیے میں اپنی بات کہا کرتے تھے، حتیٰ کہ اپنی ذات کو بھی مرکز بنا کر شگفتہ بات کہہ ڈالتے تھے۔ مشتاق احمد یوسفی نے اپنے لکھنے کی ابتدا شفیق الرحمن کو دیکھ کر کی، بلکہ کسی حد تک ان کے انداز میں لکھنے کی کوشش بھی کی، مگر جب ان سے اس طرح نہ لکھا گیا تو وہ وقتی طور پر بد دل ہوئے، لیکن جلد ہی اپنے اندر کے قلم کار کو دریافت کرلیا، جس کا اپنا ایک شیریں انداز تھا، جس نے قارئین کے دلوں کو فتح کیا، ان کے چہروں پر مسکان بیدار کی۔ معروف مزاح نگاروں میں کرنل محمد خان اور سید ضمیر جعفری سے ان کی دوستی تھی، بلکہ سید ضمیر جعفری نے ان کو’’مسکراتا ہوا فلسفی‘‘ کا لقب بھی دیا، کیونکہ یوسفی صاحب اپنی تحریروں کی طرح خود بھی ہمیشہ مسکراتے تھے، یہ الگ بات ہے، ان کی تحریروں میں فلسفہ، سماجی دکھ، ظاہر و باطن کی تشنہ خواہشیں اور زندگی کے تجربات کا نچوڑ شامل تھا۔ مشتاق احمد یوسفی کی ادبی اور ذاتی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے، انہوں نے کس طرح کی زندگی گزاری اور اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے تجربات کو قلم بند کیا۔ مشتاق احمد یوسفی کی پہلی کتاب’’چراغ تلے‘‘ 1961میں شایع ہوئی۔ دوسری تصنیف ’’خاکم بدہن‘‘ 1970 جبکہ تیسری کتاب ’’زرگزشت‘‘ کا سال اشاعت 1972 ہے، جس کو ان کی نیم سوانحی عمری بھی کہا جاتا ہے، جس میں ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے پچیس برسوں کا احاطہ ہوا ہے۔ ان کی آخری اور چوتھی مستند کتاب ’’آب گم‘‘ 1990 میں اشاعت پذیر ہوئی۔ 2014میں ان کے نام پر شایع ہونے والی پانچویں نام نہاد کتاب ’’شام شعر یاراں‘‘ تا حال ادبی حلقوں میں متنازعہ ہے۔
’’شام شعر یاراں‘‘ یوسفی صاحب کی باقاعدہ لکھی ہوئی نہیں تھی، بلکہ ان کی متروک تحریروں کوجمع کرکے اسے کتاب کی شکل دے دی گئی تھی۔
مشتاق احمد یوسفی کا آبائی وطن جے پور، ضلع ٹونک، راجستھان، بھارت ہے، ان کی پیدائش4اگست، 1923کو ٹونک میں ہوئی، یہی تاریخ ان کے میٹرک کی سند میں بھی درج ہے۔ وہ کم عمری میں جے پور واپس آگئے۔ مہاراجہ ہائی اسکول سے میٹرک اور مہاراجہ کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے۔ انٹرمیڈیٹ سے بی اے تک انہوں نے جن مضامین کی تعلیم حاصل کی، ان میں فلسفہ، تاریخ اور انگریزی ادب شامل ہے، ایم اے بھی فلسفہ میں ہی کیا، یہی مضامین بشمول فلسفہ آگے چل کر ان کی تحریروں کی بنیاد بنے اور ان کے انداز میں بھی وہی جھلک آئی۔ 1946 میں وہ پروونشنل سول سروس کا حصہ بنے اور اس عرصے میں ایڈیشنل اور ڈپٹی کمشنر بھی ہوئے۔ آباو اجداد پشاور سے نقل مکانی کر کے وہاں آباد ہوئے، وہ ددھیال سے یوسف زئی پٹھان اور ننھیال سے راجپوت تھے۔ تقسیم کے بعد 1950 میں یوسفی صاحب ہجرت کر کے کراچی، پاکستان میں سکونت پذیر ہوگئے۔ اس شہر سے ان کو بہت لگاؤتھا، یہی وجہ ہے کہ بینک کی ملازمت کے سلسلے میں گیارہ برس لندن میں رہے، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد واپس کراچی آگئے، تادم مرگ اسی شہر میں رہنا پسند کیا۔ ان کی تحریروں میں اس شہر کی خوبیوں اورسحر انگیزیوں کے بارے میں پڑھا جا سکتا ہے۔ قارئین ان کے اس پہلو سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ ان کی مادری زبان مارواڑی تھی، مگر تقسیم کے بعد جب یہ وہاں بیوروکریسی کا حصہ تھے اور ان کو خبر ہوئی، اردو بھارت کی سرکاری اور قومی زبان نہیں ہوگی، تو اس کی بنیاد پر انہوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کر لیا، اردو سے محبت کا ایک عالم یہ ہے، مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو اردو زبان کے کئی بڑے جید اور مقبول قلم کاروں کی طرف سے، جن میں کئی ان کے ہم عصر بھی شامل ہیں، انہوں نے تمام زندگی اردو زبان کا علم بلند کیے رکھا، اپنے قارئین کے دلوں میں تحریروں کے ذریعے اردو زبان سے محبت کا درس دیا، خود بھی بے لوث محبت کی، لیکن اپنی اولادوں میں یہ محبت منتقل نہ کر سکے، بلکہ شعوری طور پر ان کو انگریزی کی تعلیم و تربیت دی، یہی وجہ ہے، آج یوسفی صاحب کی اولاد سمیت اردو زبان کے اکثر بڑے ادیبوں کی اولاد، اردو زبان و ادب سے نابلد ہے،یہ ایک افسوسناک رخ بھی ہے۔
مشتاق احمد یوسفی 40 برس تک بینکاری کے شعبے میں رہے اور اس عرصے میں انہوں نے مختلف بینکوں میں نمایاں عہدوں پر کام کیا۔ 1950میں دی مسلم کمرشل بینک لمیٹیڈ سے اپنے کیرئیر کی ابتدا کی، اس کے بعد آسٹریلیشیا بینک لمیٹیڈ، یونائیٹیڈ بینک لمیٹیڈ، بی سی سی آئی سے وابستہ رہنے کے علاوہ مختلف نجی اور سرکاری بینکاری کی تنظیموں کے ساتھ بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ ان کی کتابوں کے ناشرین بھی تبدیل ہوتے رہے، مگر کتابوں کی تعداد چارہی رہی، جس پر ان سے پوچھا گیا کہ ’’گھر کا خرچہ کتابیں لکھنے سے چل سکتا ہے؟‘‘ تو اردو زبان کے مقبول ترین صاحب تصنیفات نے بھی کہا۔ ’’نہیں، کتابیں لکھ کر گھر کے اخراجات پورے نہیں کیے جاسکتے‘‘ یہ ایک ایسا قلم کار کہہ رہا ہے، جس کی کتابیں آج تک فروخت ہو رہی ہیں، اس سے پاکستان میں کتاب کے نام پر ہونے والے استحصال کی شکل بھی واضح ہوتی ہے، کتابیں فروخت ہو رہی ہیں، مگر لکھنے والے کے گھر کا خرچہ ان کتابوں سے جاری نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے اپنے لکھنے کی ابتدا ’’مشتاق احمد‘‘ کے قلمی نام سے کی، کیونکہ بوجہ ملازمت اپنے اصل نام سے لکھنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ ان کا پہلا مطبوعہ مضمون ’’صنف لاغر‘‘ تھا، جس کوپہلے ’’ادب لطیف‘‘ میں طباعت کے لیے بھیجا گیا، اس کے مدیر مرزا ادیب نے اس کو چھاپنے سے منع کیا تو پھر ’’سویرا‘‘ میں شایع ہوا، جس کے مدیر اس وقت حنیف رامے تھے۔ یہ 1955کی بات ہے، مگر وہ تقسیم سے پہلے بھی لکھناپڑھنا کر رہے تھے، یہ کہا جا سکتا ہے، ان کے ادبی کیرئیر کی ابتدا 50کی دہائی سے ہوئی، کیونکہ اس کے بعد وہ مختلف ادبی جرائد میں لکھتے رہے، انہی تحریروں کے مجموعے، کتابوں کی صورت میں شایع ہوئے، جس سے یوسفی صاحب نے ادبی وعوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی۔
مشتاق احمد یوسفی کی تمام تحریروں میں جہاں ایک طرف مزاح ہے، وہی دوسری طرف بین الاسطور میں فرد اور معاشرے کے مابین تعلق پر اپنے خیالات کا اظہار ہے، انہوں نے تمام زندگی اپنے اردگرد کے حالات اور افراد کو موضوع بنایا، کئی بار انہوں نے کردار بھی تخلیق کیے، جن کے ذریعے سے اپنی بات کو بیان کیا، ان کرداروں میں مرزا عبدالودود بیگ معروف کردار ہے، جس کے بارے میں یوسفی صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ کوئی بات خود براہ راست نہیں کہہ سکتے تھے، تو وہ اس کردار کے ذریعے کہلواتے تھے۔ ان کی تحریروں میں یہ کردار جابجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ یوسفی صاحب نے ہنستے ہنساتے کبھی کسی خاتون کے مزاج پر کچھ کہا، تو کبھی کسی مرد کے مسائل پر، کبھی ہجرت کے فلسفہ کو بیان کیا، تو کبھی شہر میں پھیلی ہوئی اداسی کو، مگر جو کچھ بھی کہا، بہت لطیف پیرائے میں ہنستے ہنساتے کہہ گئے، لیکن غور سے دیکھا اور پڑھا جائے تو وہ سب تحریریں ہمارے دلوں کا حال کہتی ہیں، اداسیوں اور پریشانوں کا احوال بھی سناتی ہیں اور بھی بہت کچھ۔ مسکراتے ہوئے فلسفی نے زندگی میں کبھی شکوہ نہ کیا، بلکہ ان شکووں کو لطیف پیرائے میں کہنا سکھایا، اس روایت کے لکھنے والوں میں یہ آخری آدمی تھے، مگر خوش قسمت، جنہیں ان کی زندگی میں وہ توقیر ملی، ان کے ہم عصروں کو مرنے کے بعدبھی جو نصیب نہ ہوئی۔
مشتاق احمد یوسفی کے لیے مستقبل میں بھی قارئین ان کی تحریروں کو پڑھ کر زندگی کی تلخ حقیقتوں کو لطیف پیرائے میں جاننے کے مشتاق رہاکریں گے۔۔
فیس بک کمینٹ