یہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ایک طرف شہزادہ سلمان‘یہودی رہنماؤں سے نہ صرف ملاقات کررہے ہیں‘بلکہ ان کے ساتھ کھانا بھی کھارہے ہیں۔دوسری طرف فلسطینی مارچ پہ بے دردی سے حملہ کرکے 16 فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی کردیئے گئے۔ایک طرف شہزادہ سلمان بیان دیتے ہیں کہ سعودی عرب میں وہابیت‘ سردجنگ کے دوران پھیلائی گئی۔
شہزادہ سلمان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم یمن پر قابو نہ پاتے تو یمن غوثیہ اور طالبان میں تقسیم ہوجاتا۔ایک طرف پاک‘ انڈیا مل کر بیان دیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے سفارتی عملے کو بے عزت نہیں کیاجائیگا ادھر کشمیر میں کبھی چارادھراور کبھی ادھر پانچ لاشیں ہیں کہ سلسلہ وار گرتی جارہی ہیں۔
ایک طرف انڈین ہائی کمشنر کہتے ہیں کہ بہت جلد انڈیا پاک کرکٹ شروع ہوجائیگی۔ادھر میڈیکل ویزے بھی قطعی طور پر بند ہیں۔ میرے اپنے تجربے میں ہے کہ شدید بیمار بچوں کے لیے ایک دن میں ویزا مل جایا کرتا تھا۔یہ اچھے زمانے کب آئینگے۔
ایک طرف ہم پیدائش کنٹرول کرنے کے لیے چالیس سال سے تشہیری اور عملی مہم چلارہے ہیں‘ دوسری طرف دنیا بھر کی نوجوان نسل بچے پیدا کرنے سے انکاری ہے۔کہتے ہیں ایک تو ہماری آزادی ختم ہوجاتی ہے اور دوسرے تنخواہ میں بچے پالنا ممکن نہیں ہے۔
ایک طرف کے ایس بی بینک‘ ایک ہزار روپے کے عوض فروخت کرکے‘ اسکو اسلامی بینک کا نام دیدیا گیا‘ اور اب کہا جارہاہے کہ بھانڈا پھوٹ گیا یہ تو نوازنا تھا‘یک طرفہ فیصلہ تھا۔ایک طرف موجودہ حکومت کے صرف کچھ ہفتے رہ گئے ہیں دوسری طرف‘ ایئرپورٹ سے لیکر نت نئے منصوبوں کا افتتاح اور نام کی پٹی لگائے جارہے ہیں۔
ایک طرف کہا جارہاہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔دوسری طرف‘ کراچی اور خاص کر رمضان کے لیے کہا جارہاہے کہ عوام کو صبر کرکے لوڈشیڈنگ برداشت کرنی پڑیگی۔اس پہ طرہ یہ کہ کے الیکٹرک کسی اورپرائیویٹ سیکٹر میں دینے کی منصوبہ بندی ہے۔
بڑے بڑے منصوبوں اور پروجیکٹ پر تو موجودہ حکومت ادھار کھائے بیٹھی ہے۔پہلے سول ایوی ایشن کے حصے کیے گئے۔اب بس ایک ماہ تک پی آئی اے کسی مفروضہ کمپنی کو دیدی جائیگی جیسا کہ قائداعظم سولر پاور پلانٹ کو اندرخانے دیدیا گیا‘جیسا کہ خزانچی کہہ رہے ہیں کہ اسٹیل مل اور پی آئی اے تو سوروپے کے عوض بھی فروخت کیے جاسکتے ہیں۔محاورہ یاد آتا ہے‘ دمڑی کی بڑھیا‘ ٹکا سرمنڈھائی۔
کشمیر (دونوں جانب) انڈیا پاکستان میں ایسے بے شمار جوڑے ہیں کہ جن کی رشتہ داری کے باعث فیس بک کے باعث یا پھر کسی اور سبب شادیاں ہوگئی ہیں۔بچے بھی ہوگئے ہیں ۔بلکہ کئی جگہ تو ایک بچہ پاکستانی اور ایک انڈین ہے نہ حکومت پاکستان نہ حکومت ہند‘ ان انسانی مسائل کی جانب توجہ دے رہی ہے۔ ہندوستان‘ پاکستان کے علاوہ ہمارے سورما جوان‘ بیوی سے علیحدگی لیتے ہیں‘ بچے اغوا کرکے‘ پاکستان آکر دوسری شادی کرلیتے ہیں۔عدالتوں کو سیاسی معاملوں سے فرصت ملے گی تو پھر انسانیت بھی یاد آجائیگی۔
یہ تو روزانہ کی بات ہوگئی کہ چاہے لاکالج کی لڑکی ہویا ماسٹرز کی علاوہ ازیں 6 سال کی بچی کے ساتھ نوجوان آدمی زیادتی کرےاور کسی کو فوری سزا نہ ملے تو لوگوں کو اورشے ملتی ہے۔ دیکھا نہیں‘ کتنا شور تھا‘ زینب کیس کا اب تک کیا ہوا۔نقیب کیس کا کیاہوا‘ مشال کیس کا اور پھر انتظار کیس کا کیاہوا۔پیچھے مڑکر دیکھیں تو اقبال جس نے سو بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کیاتھا کیا ہوا کہاگیا اس نے خودکشی کرلی یوں بچوں کومارنے کے بعد جیل جانے کے بعد‘ اس کو شرم آئی اور خودکشی کرلی۔ گوجرانوالہ کا نوجوان خوبصورت ڈپٹی کمشنر‘ جس کو پیچھے ہاتھ باندھ کر گلے میں پھندا ڈالا گیا اس کا کون قاتل نکلا‘ چپ ہوجاؤ‘ صاحب علاج کے لئے لندن گئے ہوئے ہیں۔ان کی طبعیت کہیں اور خراب نہ ہوجائے۔
اب سنئے ہمارے مسائل اور منصوبوں کو ٹالنے کے طریقے۔ریلوے لائنوں کو بہتر کرنے اور سروس بہتر کرنے کے زبردست منصوبے تھے۔اب ان کو بھی پس پشت ڈال دیاگیا ہے۔فاٹا کے لوگ اور ممبران بار بار کہہ رہے ہیں کہ سترسال کے بعد‘ فاٹا کو غیرعلاقہ ختم کریں اور اس کو کے پی میں شامل کریں۔دو بڑے سیاستدان‘ جن کی حقیقت ‘اخباروں میں بھی شائع ہوچکی ہے۔وہ اپنے مفادات کے باعث‘ فیصلہ نہیں ہونے دے رہے بلکہ اس کو الیکشن تک ٹالنے کی باتیں کررہے ہیں۔
کہا گیا تھا اور کہاجارہا ہے کہ گوادر کی مقامی آبادی کو 20 ہزار نوکریاں ملیں گی۔نوکریاں تو بعد کی بات ہے۔اس وقت تو گوادر کے مچھیرے‘ پہلے ٹالروں سے تنگ تھے۔اب تو چینی سب کچھ کھانے کے لیے موجود ہیں۔ان کو کون گھر دیگا‘کون ان کی معاشی بدحالی دور کریگا‘ اس طرح بدین سے لیکر تمام ساحلی پٹی پر پینے کے پانی کو لوگ ترس رہے ہیں یوں تو کراچی کا حال سب سے برا ہے مگر سندھ میں جن کی حکومت ہے یا پھر خود فہمیدہ مرزا‘ان کے دبنگ شوہر جوہردفعہ وہی سے منتخب ہوتے ہیں۔وہ بیٹے کو منتخب کرانے کے منصوبوں کے علاوہ اور کیا کررہے ہیں۔
آخر میں سب سے اہم بات سنا ہے ملالہ آئی، حکومتی افراد سے ملی‘شرمین عبید نے اپنی شناسا خواتین سے ملوایا۔سول سوسائٹی جس نے شور مچایا‘جس کی نظم ملالہ پہ دنیابھر میں ترجمے ہوئے۔کیا ملالہ اتنی ناواقف ہے!
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ