پرانا محاورہ ہے کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا۔ کیوں یاد آیا، ہمارے برادر ملک نے حال ہی میں خواتین کو سگریٹ پینے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ کیا مذاق ہے، دنیا بھر میں سگریٹ کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ انہوں نے سوچا عورت کو ایک اور علت لگا دو، ورنہ یہ پھر حقوق، ملازمتیں اور برابری مانگیں گی۔ پاکستان کی عورت نے جو حقوق حاصل کئے، وہ کسی حکومت کی رعایت سے نہیں، بلکہ اپنی مجموعی جدوجہد سے، اسے وہ حیثیت حاصل ہوئی ہے کہ عالمی ادارے بھی زراعت میں عورتوں کی شراکت کو مانتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ ان کو باقاعدہ اجرت دینے کے سوال پہ، بہت سے کسان دوست کہتے ہیں، یہ فصل ہم سب کی مشترکہ ہے۔ دانے بھی گھر ہی جانے ہیں مگر بہت سے کام مثلاً سبزیاں توڑنا، کپاس چننا، مرچ، بھنڈی وغیرہ بوری بھر کر لے جانا۔ اس کی دیہاڑی ملنی ضروری ہے گھروں میں کام کروانے والوں کے لئے قانون بنائے جارہے ہیں مگر بڑی بیگمات کے ساتھ بچے اٹھانے، ان کا سامان اٹھانے کے لئے جب چھ چھ سال کی بچی کو دیکھتی ہوں، غصے سے کانپ اٹھتی ہوں۔ پچھلے دنوں، دونوں میاں بیوی بڑے افسر تھے مگر بچی پہ تشدد کرنے پہ انہیں ایک سال کی سزا کاٹنا پڑی ہے۔
گزشتہ سال 8؍مارچ کو ہماری بیٹیوں نے خاص کر بڑے شدومد سے عورتوں کا دن منایا۔ ہر شہر میں جلوس نکالے، کچھ میرے جیسے بزرگ ان کے بےساختہ سلوگن پر ناراض بھی ہوئے، انہیں سمجھایا بھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہیں بات کرنے کا نہ شعور ہے اور نہ تہذیب ان کے پاس سوشل میڈیا آگیا ہے۔ وہ ابھی سے شیر آیا، شیر آیا کا شور مچانے کے ساتھ اول فول بک رہے ہیں کہ یہ NGOوالی مغرب زدہ عورتیں ہیں۔ ان کو پاکستان کی تہذیب اور معاشرت کا پتا نہیں۔ آؤ لوگو باہر آکر ان کے جلوس کو برباد کرو۔ لاحول ولا قوۃ، کہاں ہیں وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر ایسے شرمناک جملے حذف کر سکتے ہیں مگر نہیں کررہے۔
سوشل میڈیا ریگولیشن قوانین صرف سرکار اور اس کے کارندوں کے کارناموں پر پردہ ڈالنے کے لئے بنائے جارہے ہیں۔ آپ کو یاد دلائوں پرانی کہاوت کہ ایک بادشاہ کے بیٹا ہوا، جس کے گدھے کے سے کان تھے۔ جس حجام کو اس کے لئے مقرر کیا گیا، اس کا باہر جانا اور بات کرنا بھی منع تھا۔ انتہا یہ ہوئی کہ وہ ضبط سے تنگ آکر کنویں میں منہ کرکے چیخا ’’شہزادے کے گدھے کے سے کان‘‘۔ یوں بات سارے ملک میں پھیل گئی۔ تو ہمارے آج کے بادشاہوں کو یہ ذرا سی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر جمائمہ کے ٹویٹ کا کیا مطلب ہے۔ یہ بھی کوئی بتائے گوادر کے چاروں جانب کی زمین آج سے پندرہ سال پہلے سے کس نے خریدی اور کیش دے کر خریدی۔ پھر بیچی اور پھر خریدی۔ ایسے کاروبار ہر شہر میں زور دکھا رہے ہیں۔ کچھ بھی اعلان کرتے رہئے، قیمتیں جہاں پہنچ گئیں وہاں سے نیچے اس لئے نہیں آرہی ہیں کہ پرچون فروش کہتے ہیں کہ ہم نے تھوک والوں سے اسی قیمت پر لی ہیں۔ سوشل میڈیا، ہر طرح کی کارستانیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ کسی بچے نے آدھے گھنٹے کو میرا موبائل پکڑا۔ کل سے آج تک، اس پر اتنی طرح طرح کی لڑکیوں کی بےباک گفتگو اور بےتحاشا بلاوے ہیں کہ آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کو چیک کون کرتا ہے اور اگر نہیں کرتا تو کیوں نہیں کرتا۔ خبروں پہ گرفت۔ ان پر نہیں۔ یہ کیا مذاق ہے۔
ویسے تو سرکار بھی خوب الٹ پلٹ کام کررہی ہے۔ مجھے یاد ہے جب شہباز شریف کو لندن جلاوطن کیا گیا ان کے گھر کو سوشل ویلفیئر کا دفتر اور اولڈ پیپلز ہوم بنادیا گیا تھا۔ جس دن وہ واپس آئے، راتوں رات وہ دفتر اور بوڑھوں کا مسکن بھی گیا۔ پرانے زمانوں میں کھر صاحب کی نہر کے کنارے اکلوتی کوٹھی تھی۔ اس کو نیلام کرنےکا ڈرامہ رچایا گیا۔ ان کے ہی کسی کارندے نے خریدا، پھر انہیں واپس مل گئی۔ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی جب اسکولوں سے بزنس تک قومیائے گئے۔ پھر نہ وہ لیلیٰ رہی نہ وہ مجنوں رہا۔ اب کہہ رہے ہیں، چار سو پوسٹیں فالتو ہیں۔ ادھر کہہ رہے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ پوسٹیں سرکاری محکموں میں خالی پڑی ہیں۔ یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
سوشل میڈیا تو بندر کے ہاتھ آیا استرا ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ہر وقت بات کرتے نظر آتے ہیں۔ دن رات نوجوان باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ والدین جاگتے اور غصے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے۔ یہ سب نوجوان اس امر سے آگاہ نہیں یا ہونا نہیں چاہتے کہ دنیا میں مہاجرت کا جو سلسلہ ہے۔ وہ دہشت گردی کی حدوں یا نسلی گم شدگی کی تہہ تک پہنچ چکا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں نوکری نہیں ہے۔ اب تو باقاعدہ دن دیہاڑے ڈاکے ڈال رہے ہیں اور پیغام چھوڑ کر جارہے ہیں ’’کہہ دو عمران خان سے نوکریاں نہیں دوگے، تو ہم اس طرح اپنا بندوبست کر لیں گے‘‘۔ بھلا سوچئے، سیاست، معیشت حتیٰ کہ مذہب تک اس نے پڑھا نہیں۔ لوگ اس کو کبھی کارل مارکس، توکبھی امیر المومنین کا درجہ دینے کو اخبار کے صفحے کالے کرتے رہتے ہیں۔ وہ 23رکنی طائفہ کیا مشورے دیتا ہے؟ یہ گھر گھر گردے خریدنے اور گردے بیچنے کے مسلسل واقعات، یہ پیری مریدی کے نام پر لڑکیوں کی عزتیں لوٹنے کا کاروبار۔ یہ روز بھینسوں کو انجکشن لگا کر زیادہ دودھ لینے کے طریقے۔ یہ ماسٹر کرنے والے بچوں کے ہاتھوں میں اردو بازار میں بکتے خلاصے۔ پھر توقع کہ ہم سارا نصاب ایک کر دیں گے۔ پہلے درس نظامی میں فارسی، عربی دونوں پڑھائی جاتی ہیں۔ ضیاء الحق کے زمانے سے یہ سب باہر۔ اگر گلستانِ بوستان، اماموں کے شذرے اور اجتہاد کی بحثوں کا علم ہی نہیں تو پھر یہ جوان لڑکیوں کی عزت اور بڑوں کا احترام کیسے کریں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ