اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً حکومت کو یہ مشورہ اس کے قانونی ماہرین نےدیا ہوگا لیکن بین الاقوامی عدالت انصاف کے آج تک کے ریکارڈ سےظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر جیسے متنازعہ امور کے فیصلے کے لیے یہ مناسب فورم نہیں ہےکیونکہ ابھی تک اس عدالت نے اس نوعیت کے کسی کیس کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف میں اگر پاکستان مسئلہ کشمیر لے کر جاتا ہے تو عدالت متعین وقت میں اس کا فیصلہ کرنےکی پابند نہیں ہے کیونکہ کوئی ایسا ضابطہ موجود نہیں ہے جو اس کو ایک مخصوص وقت میں کسی کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بناتا ہوجس کا مطلب ہے مسئلہ کشمیرکےفیصلہ ہونے میں سال ہا سال لگ سکتے ہیں اوریہ مسئلہ عدالت کے کھوہ کھاتے میں پڑا سڑتا رہے گا۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو وہ یقیناً اس کو پس پشت ڈالنے اور زیر التوا رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گا کیونکہ متعین وقت میں فیصلہ کرنے کے ضوابط نہ ہونے کی بنا پراسے تاخیر کرنے کےحربے کی سہولت میسر رہے گی۔
بین الاقوامی عدالت انصاف آرٹیکل 36 کے تحت انہی متنازعہ امور بارے فیصلہ کرنے کی مجاز ہے جو اس نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کو ریفر کرنا ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اگر بعد از خرابی بسیار عدالت مسئلہ کشمیر بارے کوئی فیصلہ کر بھی دیتی ہے تو پھر وہ اس فیصلے کو سکیورٹی کونسل کو بھیج دے گی یعنی کھوتی فیر بوہڑ تھلے والی صورت حال ہوگی۔
آرٹیکل 60 کے مطابق عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوسکتی گو نظر ثانی داخل کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے لئے بہت محدود آپشنز مہیا کئے گئے ہیں۔فرض کیا بین الاقوامی عدالت انصاف کوئی فیصلہ بھارت کے خلاف دے بھی دیتی ہے تو اس فیصلے کے نفاذ کا اس کے پاس کوئی میکنزم ہے؟ ایسا کوئی میکنزم بین الاقوامی عدالت انصاف کے پاس نہیں ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کراسکے۔ حکومت پاکستان کے اس فیصلے سے کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکٹانے کا ارادہ رکھتی ہے چند بڑے وکلا کو کروڑوں میں فیس ، بیورو کریٹس اور فو جی افسروں کو سیر سپاٹوں اور ٹی اے ڈے کی مدوں میں لاکھوں روپے تو مل جائیں گے پاکستان اور کشمیر کو کچھ حاصل نہیں ہوگا