21اگست کااخباراٹھایاتو فوراًایک اشتہارپرنظرپڑی جس میں قائداعظم محمدعلی جناح کے علاوہ دو ، دو پاکستانی اوربھارتی رہنماﺅں کی تصاویرکشمیر کے حوالے سے تاریخی بیانات کے ساتھ شائع کی گئی ہیں ان چاررہنماﺅں میں سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹواورموجودہ وزیراعظم عمران خان،سابق بھارتی وزیراعظم جواہرلال نہرواوراندراگاندھی شامل ہیں۔بھٹوکی تصویردیکھ کرحیرت زدہ رہ گیا۔تقریباًہرزاویے سے تصویر دیکھنے کے بعدآنکھوں اوردماغ نے تصدیق کردی کہ یہ وہی ویژنری لیڈرہے جس نے70ءکی دہائی میں دنیاکوباورکرادیاکہ پاکستان ایک لیڈنگ اسلامی ملک ہے۔قارئین کرام ہم جب دیہات میں کرکٹ کھیلتے تھے تواکثراوقات2ٹیمیں بنانے کیلئے کھلاڑی پورے نہ ہوپاتے ۔ایسی صورت حال میں ایک ایسے کھلاڑی کاانتخاب کرناپڑتاجودونوں طرف سے کھیلتاتوجس کھلاڑی کویہ ذمہ داری دی جاتی وہ پھولے نہ سماتا۔عمران خان نے ایسے کھلاڑی کو ریلو کٹے کا نام بھی دیا ۔مذکورہ اشتہارمیں کسی پاکستانی فوجی حکمران کی تصویرنہ پاکربڑادکھ ہواکیونکہ نامساعدحالات میں آخر35سال تک انہوں نے بھی توقائدانہ صلاحییتوں کالوہامنوایاہے اوراشتہارکی نوعیت کے مطابق اس کیلئے بہترین انتخاب تومردمومن مردحق ضیاءالحق کاہی بنتاتھا۔لیکن یہاں ایڈدینے والوں کی ذہانت کو بھی داددیناپڑے گی جنہوں نے ایک تیرسے دوشکار کئے۔ایڈکمپنی نے عمران خان کی تصویر لگاکرٹیم پوری کردی اور ساتھ ہی ساتھ شملہ معاہدے کے اقتباس شائع کرکے معاہدہ شکن مودی کی نمائندگی بھی کردی۔
میں اکثرسوچتاہوں کہ مشرقی پاکستان بھی توہماری شہ رگ تھا ۔یہ شہ رگ ہمارے ازلی دشمن نے 1971ءمیں کاٹ دی تھی اورہم آج تک اس کابال تک بیکا نہ کر سکے۔فرض کریں کہ قائداعظم محمدعلی جناح آج آجائیں توہم منہ چھپاتے پھریں گے۔ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے 71ءمیں سقوط ڈھاکہ ہوا۔93ہزارسے زائدپاکستانی فوجی اورسویلین اسلحہ سمیت دشمن کے نرغے میں آگئے۔بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کانظم و نسق بھی ویژن سے محروم فوجی حکمران یحیٰ خان کے سپردتھا۔17دسمبر1971ءکو جنگ بندی ہوئی مغربی پاکستان میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے پر 20 دسمبر 1971 کو ذوالفقار علی بھٹوکواقتداردیاگیا۔ بھٹوصاحب ابھی تازہ تازہ الیکشن جیت کرآئے تھے۔سو بھٹوکاامتحان شروع ہوگیا جس کی انہوں نے تیاری نہیں کی تھی۔واقعی وہ قائدعوام تھے۔انہوں نے فرنٹ فٹ پرآکرقوم کولیڈ کیا۔اپنی صلاحییتوں کابھرپوراظہارکرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سے شملہ معاہدہ کیا۔محصورپاکستانی فوج کوآزادکرایا۔اپنے ویژن اورمصمم عزم سے پاکستان کی پوری دنیامیں ایک زندہ اورپرعزم قوم کی حیثیت سے شناخت کرائی۔جنگ سے تباہ حال معیشت کواپنے پاﺅں پرکھڑا کیا۔ایٹمی پاکستان کی بنیادرکھی ۔اسلامی ممالک کے طوفانی دورے کئے ۔عرب ممالک کابلاک بنایا۔مسئلہ کشمیرکوعالمی سطح پرااجاگرکیااوردنیا نے اس کی متنازعہ حیثیت کوتسلیم کیا۔دشمن کوخطرہ پیداہوگیا کہ بھٹو کے ہوتے ہوئے کشمیراس کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔امریکہ کوبھی بھٹوکھٹکنے لگا۔سواندرونی اوربیرونی سازشیں شروع ہوگئیں۔امریکہ نے اسی فوج سے ایک جرنیل کوتیار کیا۔جس فوج کو بھٹو نے دشمن کی قید سے چھڑایا تھا۔اس طرح اس وقت جب بھٹو کے خلاف چلائی سپانسرڈ تحریک کے تمام رہنما ایک سمجھوتے پرمتفق ہوگئے تھے توضیاءالحق کوبھٹو کے مقابل میدان میں اتاردیاگیا۔پاکستانی قوم آج بھی مردمومن مردحق اور مشرف کے سیاہ کارناموں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔جب کہ تاریخی شملہ معاہدے کی تنسیخ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 5دسمبر2019کومقبوضہ وادی میں آرٹیکل370اور35 اے کانفاذ کر کے کر ڈالی۔بھٹو کے بائیں طرف قائداعظم کی تصویر دیکھ کرشہیدبھٹوکا وہ خط بھی یادآگیا جوانہوں نے اپنے سکول کے دنوں میں انہیں لکھاتھا۔اس خط سے بھٹو کی سیاست سے دلچسپی کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔خط26اپریل 1945ءکولکھاگیا جس میں بھٹو نے قائداعظم کولکھا کہ ”آپ نے ہمیں متاثرکیا ہے ہمیں آپ پرفخر ہے،سکول طالب علم ہونے کے ناطے میں اپنی مقدس سرزمین کی اسٹیبلشمنٹ کی مدد نہیں کرسکتالیکن وقت آئے گا جب میں پاکستان کیلئے اپنی جان تک قربان کردوں گا“۔قارئین کرام بھٹو نے اپناوعدہ سچ کردکھایا جب ایٹمی پاکستان کے بانی،عرب ممالک کابلاک بنانے والے ،غریب عوام کے حقیقی لیڈر،شملہ معاہدے کے خالق کو امریکہ کی شہ پرننگی سازش کے تحت4اپریل1979ءکوتختہ دارپرچڑھادیاگیا۔یقنی طور پر آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ دور اندیش لیڈر اور ریلوکٹے میں کیا فرق ہوتا ہے ۔۔