اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کے ویڈیو اسکینڈل سے متعلق کیس کا فیصلہ سنا دیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جج ارشد ملک سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا۔جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال بھی بینچ میں موجود رہے۔
چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ تفصیلی فیصلہ ویب سائٹ پر جاری کر دیا ہے، میڈیا اور فریقین فیصلے کو ویب سائٹ پر دیکھیں۔
پانچ اہم سوال
سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس کیس میں 5 اہم سوال تھے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ویڈیو مستند ہے؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر ویڈیو مستند ہے تو اسے کس فورم پر کیسے ثابت کیا جائے؟
تیسرا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے نواز شریف کے کیس پر کیا اثرات ہوں گے؟
چوتھا سوال یہ تھا کہ ویڈیو کے جج کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
پانچواں سوال یہ تھا کہ جج ارشد ملک کے رویے کو کس فورم پر دیکھا جائے گا؟
سپریم کورٹ کے 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔ ارشد ملک کو اب تک لاہور ہائی کورٹ نہیں بھجوایا گیا ہے اس لیے محکمانہ کارروائی کا ابھی آغاز نہیں ہوا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔سپریم کورٹ نے 20 اگست کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے متعلق ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں بھی لاہور ہائیکورٹ کو جج ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
( بشکریہ : جیو نیوز )