قیام پاکستان کی بدولت فوجی اور سول بیورو کریسی میں حیرت انگیز طورپر ترقیاں ہوئی تھیں اور فوجی افسر یا سول بیورو کریٹ جو محکمانہ ترقی کے حوالے سے ایک حد سے آگے جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یکا یک اپنے محکموں کے سربراہ اور فوج کے جنرلز کے عہدوں پر فائز ہوئے۔
جنرل یحیی خان پاکستان کی سیاسی اور فوجی؟ تاریخ کا سب سے قابل نفرت کردار بن چکا ہے لیکن اس کے فوجی کیر ئیر کا مطالعہ کافی دلچسپ ہے۔ اس کے پروفیشنل پروفائل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ترقیاں کیسے ہوئیں اور اگر پاکستان نہ بنتا تو جنرل یحیی خان اور اس قبیل کے فوجی میجر کرنل بن کر ریٹائیر ہوکر گھر چلے جاتے۔
جنرل یحیی خان قیام پاکستان کے وقت میجر تھے اور انڈین ملٹری سکول کوئٹہ میں بطور انسٹرکڑ تعینات تھے۔ بطور انسٹرکٹر یہ کارنامہ سمجھا جاتا ہے کہ انھوں نے سکول کی لائبریری کی کتب کی بھارت منتقلی ناکام بنائی تھی۔ انھیں 34 سال کی عمر میں بریگیڈئیر کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ اتنی چھوٹی عمر میں ان کی بریگیڈیر کے عہدے پر ترقی پاکستان کی فوجی تاریخ میں ریکارڈ ہے۔ جب جنرل ایوب خان نے صدر سکندر مرزا سے استعفی لینے کامطالبہ کیا تو استعفیٰ کا ڈرافٹ میجرجنرل یحیی خان نے ہی تیار کیا تھا۔
وہ میجر جنرل شیر علی خان پٹودی کے بعد پاکستان کی فوج کے چیف آف سٹاف جیسے اہم عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ پہلے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور بعد ازاں 1966 میں جنرل ایوب خان نے جنرل موسی کی ریٹائرمنٹ پردو سنئیر جنرلز لیفٹیننٹ جنرل الطاف قادر اور لیفٹیننٹ جنرل بختیار رانا کو سپر سیڈ کرتے ہوئے انھیں کمانڈر ان چیف مقررکردیا تھا۔جنرل یحٰی خان نے فاطمہ جناح اور جنرل ایوب خان کے مابین صدارتی انتخابات کو صدر جنرل ایوب خان کے حق میں مینجج کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا جس کی بنا پر وہ ایوب خان کے پسندیدہ فوجیوں میں تھے۔
جنرل ایوب خان کی دس سالہ آمریت کے خلاف جب 1968/1969 میں عوامی تحریک شروع ہوئی تو جنرل یحیی خان نے اس تحریک میں شامل سیاسی رہنماوں سے روابط قائم کئے اور انھیں جنرل ایوب خان کے خلاف ہلا شیری دی تھی۔جنرل ایوب خان جب اس عوامی تحریک کو دبانےمیں ناکام ہوئے تو جنرل یحیی خان اور ان کے ساتھی جنرلز کےدباو پر انھوں نے مستعفی ہونے اور کمانڈرانچیف جنرل یحیی خان کو اقتدار سونپ دیا تھا جو اس وقت 49 برس کے تھے۔
انھوں نے تاحیات صدر رہنے کا پروگرام بنایا تھا لیکن مشرقی پاکستان میں پاکستان کی فوج کی شکست اور بنگلہ دیش کے قیام کی بنا پر انھیں اقتدار چھوڑنا پڑا اور اس وقت ان کی عمر 53 برس تھی۔ان سے یہ اقتدار انہی کے چیف آف جنرل سٹاف گل حسن نے چھینا تھا جو بھٹو کو اقتدار دلوا کر خود پاکستان کی فوج کے آخری کمانڈرانچیف بن گئے تھے۔ بھٹو نے جنرل یحیی خان کو ان کے گھر واقع ویسٹریج راولپنڈی میں نظر بند کیا تھا جہاں وہ سات سال تک نظر بند رہے تھے پھر جنرل ضیاء نے ان پر عائد تمام پابندیاں ختم کردیں اور انھیں نقل و حرکت کی اجازت دی تھی۔
وہ 10 اگست 1981 کو 63 سال کی عمر میں اپنے گھر میں انتقال کرگئے تھے اور انھیں فوجی اعزاز کے ساتھ فوجی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا تھا
جنرل یحیی خان جس سنئیر جنرل الطاف قادر کو سپر سیڈ کرکے فوج کے سربراہ بنے تھے بھٹو نے انھیں حمود الرحمن کمیشن کا رکن بنایا تھا۔
جنرل یحیی خان کو بنگلہ دیش اور فوجی شکست کا ذمہ دار ٹھہرانا مطالعہ پاکستانی تاریخ ہے۔ وہ یقیناًوہ اس وقت فوج کے سربراہ تھے لیکن ان کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر اور قریبی ساتھی میجر جنرل غلام عمر تھے۔ خود جنرل گل حسن چیف آف جنرل سٹاف تھےجو فوج کے سربراہ کے بعد اہم ترین عہدہ ہوتا ہے۔ جنرل عبدالحمیدخان یحیی خان کے کمانڈر ان چیف تھے جن پر عائد پابندیوں کو جنرل ضیاء نے برسر اقتدار آتے ہیں ختم کردیا تھا
جنرل یحیی خان بنگلہ دیش کے قیام اور فوج کی شکست کا ذمہ دار نہیں تھا اس کے ساتھی جنرلز بھی اتنے ہی ذمہ دار تھے سب کو مورد الزام ٹھہراو نہ کہ اکیلے جنرل ٰیحیی خان کو الزام دے کر تاریخ کو مسخ کرنا ہے
فیس بک کمینٹ