موبائل فون پر ایک سے دوسرے دوست کو منتقل ہوتے گردشی پیغامات نے جہاں ہمیں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے باخبر رہنے کی مسّرت بخشی ہے، وہیں کبھی کبھی یہ پیغامات ہمیں اُن چاہے حادثوں کی خبر دے کر مغموم بھی کر جاتے ہیں۔ جس طرح ہماری اجتماعی سماعتیں ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ ایسے بظاہر بے ضررّ تخاطب ہی سے بھاری بوٹوں کی چاپ سننے سے نہیں چُوکتیں بالکل اُسی طرح ہمارے کسی دوست کے نام اور مختصر تعارف سے آغاز لینے والے پیغامات بھی یک لخت ہماری دھڑکنوں کو بے ترتیب کرنے اور کسی اندوہ ناک خبر کی سفّاکی ہمارے دِلوں میں اُتارنے کا ہُنر جانتے ہیں۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ 2013 ء کے رمضان کے آخری عشرے میں رات گئے رضی الدین رضی کے اُس پیغام نے کہ جس کا آغاز نعیم چوہدری کے نام اور مختصر تعارف سے ہو رہا تھا، ہمیں اُس انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کی نوید سنائی جو ہر رمضان کے آخری عشرے میں اُن کے دوستوں اور قرابت داروں کو رہتا ہے کہ نعیم لاج میں ایک شاندار افطار ڈِنر میں مل بیٹھنے کا موقع ملنے والا ہے۔ لیکن اِس بار چوہدری صاحب دوستوں سے ہاتھ کر گئے۔ اس افطار ڈِنر کو اپنی قل خوانی میں بدلتے میزبانی سے دستبردار ہو گئے۔ رضی کے اِس پیغام کے بعد یہ رات معمول کی راتوں ایسی نہ تھی۔ تمام رات چوہدری صاحب کی یادیں لُکن میٹی کھیلتی رہیں۔ مجھے 1996، 97 ء کا وہ زمانہ یاد آگیا جب میں زکریا یونیورسٹی میں ایم اے اُردو کر رہا تھا کہ اساتذہ کی تحریک پر اُردو اکادمی کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے علی گڑھ کالج گیا۔ یہیں پہلی مرتبہ میری دراز قد، خوش لباس، خوش بیان، قدرے لمبوترے مگر باوقار چہرے اور مخمور آنکھوں والے نعیم چوہدری سے ملاقات ہوئی۔ دھیرے دھیرے یہ ملاقات ایک رفاقت میں بدلی اور مجھے احساس ہوا وہ جسے ہم جنریشن گیپ کہہ کر دو نسلوں کے بیچ کبھی نہ ختم ہونے والی لکیر کھینچتے، کسی بھی بے تکلف مکالمے کو منسوخ کر دیتے ہیں، اُسے کوئی ختم کرنے کا ہنر بھی جانتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر، عبدالرشید، اصغر ندیم سیّد اور ڈاکٹر انوار احمد ایسی نابغۂ روزگار شخصیات کا بے تکلف دوست نعیم چوہدری میرا اور میرے جونیئرز کا بھی ویسا ہی بے تکلف دوست تھا جو لطیفہ سنا کر کلکاری مارتے ہوئے اپنے دل کی طرح کشادہ ہتھیلی ہماری جانب بڑھانے اور اُس پر پڑنے والی ہتھیلیوں کی گونج سے محظوظ ہو سکتا تھا۔ ہم نے کبھی بھی اُنھیں اُس مقدس بزرگ کی طرح نہ دیکھا کہ جن کی تکریم تو کی جاسکے ڈھنگ سے دل کی بات نہ کہی جاسکے۔ اس کے برعکس وہ ہمیشہ ہمیں ایسے بے تکلف دوست محسوس ہوئے جن سے کوئی بھی بات کبھی بھی کی جاسکتی ہے۔
اُردو اکادمی اور نعیم چوہدری لازم و ملزوم رہے۔ اکادمی کے عروج و زوال کے سارے زمانے شاہد ہیں کہ اگر کوئی ایک شخص اس محبت سے دستبرداری پر آمادہ نہ ہوا تو وہ نعیم چوہدری ہی تھا۔ اکادمی کے اُن زمانوں میں بھی کہ جب عرش صدیقی، ڈاکٹر انوار، اسلم انصاری، ڈاکٹر فاروق عثمان، ارشد ملتانی، ابنِ حنیف، مبارک مجوکہ، فیاض تحسین، خالد سعید، ڈاکٹر شمیم ترمذی اور اقبال ارشد ایسے میرے شہر کے سبھی استعارے اس پلیٹ فارم پر نت نئے بامعنی مکالموں کی بنیاد رکھ رہے تھے اور آج بھی کہ جب پڑھنے والا سیکرٹری کے ساتھ سامعین کی راہ دیکھتا نظر آتا کہ اچانک چوہدری صاحب کی گاڑی رکتی، وہ دائیں بائیں جھومتے، ٹہلتے ٹہلتے کمرے میں داخل ہوتے اور کہتے بس کورم پورا ہے میں صدارت کرتا ہوں، آپ اجلاس شروع کریں۔ اُن کے اِس رومان میں کبھی کمی نہ آئی۔ میں نے اکادمی کے حوالے سے اُنھیں ایک ایسے جذباتی کارکن کی صورت دیکھا جو اپنی ذمہ داریوں سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ گرمیوں میں ہم نے دیکھا وہ اپنی گاڑی سے اُترے اور کالج کے چپڑاسی کو آواز دی جو گاڑی میں رکھا پیڈسٹل فین ، پانی کا کولر، ایمرجنسی لائٹ اور اس نوع کے دیگر لوازمات اُٹھائے اندر لے آیا۔ سردیوں میں یہی چپڑاسی دورانِ اجلاس چوہدری صاحب کے پاس آتا، کان میں کوئی سرگوشی کی، پلٹا اور پھر جب آیا تو چائے کا تھرماس اور ٹرے میں رکھی پیالیوں سیمت آیا اور حاضرینِ محفل کے سامنے گرم گرم چائے کی پیالیاں دھرتا چلاگیا۔ یوں معمول کی بحث بھی جاری رہی اور احباب چائے سے بھی لطف اندو وہوتے رہے۔ اکادمی کو جب کبھی معاشی بحران سے دوچار ہونا پڑا مستقل اراکین نے جتنا حصہ ڈالا سو ڈالا جو بچ رہا چوہدری صاحب نے ادا کر دیا۔ اکادمی کے جلسوں کی روداد ہو یا ہفتہ وار پروگرام کی خبر، پریس ریلیز کا ذمہ چوہدری صاحب نے اُٹھا رکھا تھا۔ اُن کا اصرار رہتا کہ اجلاس کی خبر ہر صورت اخبارات میں شائع ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں وہ اپنے ٹیلی فون اور فیکس کو ہمہ وقت حاضر رکھتے۔ اکادمی میں ہونے والی خصوصی تقریبات کا اہتمام جب کبھی بھی ہوا چوہدری صاحب سب سے زیادہ متحرک نظر آئے اور پھر ہر رمضان کے آخری عشرے میں اُن کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی کس کو بھول سکتی ہے کہ جہاں سال میں کم از کم ایک مرتبہ شہر کے سبھی ادیبوں کو مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا۔
اگرچہ چوہدری صاحب مستعمل معنوں میں ادیب نہ تھے مگر ادب ہمیشہ اُن کا خبط رہا۔ اکادمی کی نشستوں میں اُن کی آمد اجلاس سے پہلے ہوتی یا دورانِ اجلاس اُن کے کچھ مخصوص معمولات تھے جو احباب کے چہروں پر خوشگوار تاثر چھوڑ جاتے۔ اپنے لمبے چوڑے قد کاٹھ کے ساتھ ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر تھامے وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے، دائیں بائیں جھومتے آتے تو پہلے تو ہاتھ اُٹھا کر ایک اجتماعی سلام کرتے۔ پھر بیٹھنے سے پہلے پہلی قطار میں بیٹھے احباب سے فرداً فرداً ہاتھ ملاتے اور مسکرا کر اپنا تعارف کرواتے۔ نعیم چوہدری۔۔۔ لطف کی بات یہ کہ ہر بار اُن کا یہ تعارف محض اجنبیوں سے مشروط نہ تھا بلکہ کئی کئی دہائیاں ایک ساتھ گزارنے والے ڈاکٹر شمیم ترمذی، فیاض تحسین یا انور جمال بھی اس قطار میں بیٹھے تھے تو وہ اسی اہتمام سے انھیں ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کرواتے۔نعیم چوہدری!۔۔ ایسے میں مقابل اگر مسکرا کر اپنا نام دُہراتا تو کان قریب لا کر یوں غور سے سنتے جیسے پہلی بار سُن رہے ہوں۔
اپنا موبائل فون تو پاس رکھتے ہی تھے درمیان میں کچھ عرصہ ایسا بھی آیا کہ پی ٹی سی ایل کا وائرلیس سیٹ اہتمام سے لاتے اور اپنے سامنے میز پر یوں دھر دیتے گویا دفتر میں بیٹھے ہوں۔ فون کال سننے میں بھی اُن کا اپنا خاص سلیقہ تھا۔ مقابل سے بات کرتے کرتے یک لخت کہتے سلام علیکم اور فون رکھ دیتے۔ ایسے میں بات مکمل یا اُدھوری رہ جائے اُنھیں مطلق پرواہ نہ تھی۔ سلام علیکم اور فون بند۔
اکادمی میں جب کبھی کچھ پڑھا جاتا ہم دیکھتے چوہدری صاحب آنکھیں موندے بظاہر غنودگی میں ہیں، مگر جونہی پڑھنے والا پڑھ چُکتا اور صاحبِ صدر گفتگو کی دعوت دیتے۔ چوہدری صاحب اُنہی اَدھ کھُلی آنکھوں سے کلاس کے ذہین طالب علم کی طرح ہاتھ اُٹھا لیتے اور پھر اجازت ملتے ہی اپنا تبصرہ نشر کرنے لگتے۔ حیرت ہوتی کہ بظاہر نیند میں گم چوہدری صاحب اس توجہ اور باریکی سے پڑھے جانے والی تحریر کو سُن رہے تھے۔ اُن کی گفتگو اپنے تئیں سنجیدہ مگر احباب کے لیے شگفتہ ہوتی۔ لیکن ہنسی ہنسی میں اگر کوئی غور کرتا تو وہ ساری پتے کی باتیں کر چُکتے۔ بہت آسان اور سادہ سے اُردو الفاظ کو بھی بعض اوقات بولنے سے گریز کرتے اور اُن کا متبادل انگریزی لفظ بولتے ہوئے ایک لفظ لازمی بولتے کہ Safly اِسے انگریزی میں یہ کہتے ہیں۔ اور پھر اس آسان سے انگریزی لفظ کے متعلق بھی انھیں یہ یقین رہتا کہ محفل میں اُن کے علاوہ کوئی مائی کا لعل اس درجہ پڑھا لکھا نہیں ہو سکتا کہ اس لفظ سے واقف ہو۔ لطف یہ کہ حاضرینِ محفل نے بھی اُن کے اس یقین کو کبھی وہم میں بدلنے کی کوشش نہ کی۔ دورانِ اجلاس کسی کی گفتگو سے اُنھیں اختلاف ہوتا تو فوراً اُن کا ہاتھ بلند ہوجاتا اور جب تک صاحبِ صدر اُنھیں گفتکو کی اجازت نہ دے دیتے وہ ہاتھ لہراتے رہتے۔ خرم جاوید جن دِنوں اکادمی کی نظامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے، چوہدری صاحب کو اُن کی سستی اور عدم دلچسپی پر جلال آیا اور اُنھوں نے یہ ذمہ داری خود اُٹھانے کا اعلان کر دیا۔ اگلے اجلاس میں چوہدری صاحب نے یہ مسند سنبھالی، نوٹس لیے اور آئندہ اجلاس سے قبل رپورٹ پڑھی جسے اکادمی کی مختصر مگر جامع ترین رپورٹ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ رپوٹ کچھ یوں تھی۔
’’اُردو اکادمی کا گذشتہ اجلاس فلاں صاحب کی زیرِ صدارت منقعد ہوافلاں نے نثر پارہ پیش کیا۔ نعیم چوہدری نے نثرپارے کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی۔ تمام احبابِ محفل نے نعیم چوہدری کی گفتگو سے اتفاق کرتے ہوئے نثر پارے کو ایک کامیاب تحریر قرار دیا اور اجلاس برخواست کر دیاگیا۔‘‘
اس جامع کارروائی پر چوہدری صاحب نے بعد از اجلاس حاضرین کو نہ صرف داد طلب نظروں سے دیکھا بلکہ نوجوانوں کو سمجھاتے ہوئے بولے کہ یہ ہوتی ہے ادبی رپورٹ۔ یہ کل کے لونڈے کیا جانیں رپورٹ کیسے لکھی جاتی ہے۔
ادب کے علاوہ چوہدری صاحب کا ایک خبط کرکٹ بھی تھا۔ اپنے دور میں وہ کرکٹ کے اچھے کھلاڑی رہے اور بقول اُن کے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے بھی رہے۔ ٹی وی پر تو میچ دیکھتے ہی تھے پنجاب کی حدود میں ہونے والے بین الاقوامی میچ بالعموم اسٹیڈیم میں جا کر دیکھتے۔ پرانی فلموں اور گانوں کے بھی بے حد رَسیا تھے اور اس بابت بہت سی معلومات رکھتے تھے۔بھارتی اداکارہ نرگس کو حددرجہ پسند کرتے تھے اوراُس کی ایک بڑی تصویر گھر کے ڈرائنگ روم میں لگوا کھی تھی۔ بقول ڈاکٹر انواراحمد نرگس اُن کے دل کے نہاں خانے میں سجی اُس تصویر سے مماثلت رکھتی تھی کہ جسے گھر کی دیوار پر چسپاں کروانا شاید چوہدری صاحب کے اختیار میں نہ تھا۔ سو اس محرومی کا ازالہ اُنہوں نے نرگس کی اِس تصویر کے ذریعے کیا اور تمام عمر اِسی میں ایک اور عکس کو تلاش کرتے رہے۔
چوہدری صاحب کی مادری زبان پنجابی تھی اور اس زبان سے محبت تھی کہ اکادمی کے اجلاس کے علاوہ اُن کی کوشش ہوتی کہ پنجابی میں ہی بات کی جائے۔ چوہدری صاحب کا ایک وصف خوش لباسی بھی تھا۔ سردیوں کا موسم اُن کے مطابق اکتوبر سے شروع ہوجاتا تھا اور مارچ کے اواخر تک سردیاں ہی رہتی تھیں۔سو اس عرصے میں وہ ہمیشہ نت نئے پینٹ کوٹ اور نک ٹائیوں میں دکھائی دیتے۔ اس ضمن میں دفتر یا شام کے اوقات کی قید نہ تھی۔ اکادمی کے اجلاس میں بھی اسی اہتمام سے آتے جس سے دفتر جاتے ہوں گے۔ اُدھر مارچ ختم ہوتا کہ چوہدری صاحب کے سفاری سوٹ نکل آتے یا پینٹ پر ہاف بازو چیک والی کھلی شرٹس پہنتے۔ میں نے کبھی بھی اُنھیں بڑھی ہوئی شیو یا بِنا استری کے رَف کپڑوں میں نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ تیار نظر آتے بالکل یوں جیسے کسی تقریب سے آرہے ہوں یا جانے والے ہوں۔ اپنی دانست میں کوئی اہم بات بتاتے تو دائیں آنکھ میچ کے ہتھیلی آگے بڑھا دیتے جیسے کہہ رہے ہوں لاؤ ہاتھ دو کیسی پتے کی بات بتائی ہے میں نے۔ ڈاکٹر شمیم ترمذی، انور جمال اور فیاض تحسین اُن کے دوست ہی نہیں عشق بھی تھے۔ وہ اُن کی تخلیقات کو ادبِ عالیہ کا درجہ دیتے اور کسی بھی معاملے میں اُن کی رائے کو سند گردانتے تھے۔ دوستوں سے اس والہانہ محبت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ اُن کی محبت بھری نوک جھونک جاری رہتی اور یہ تینوں احباب اُنھیں چھیڑ کر خوش ہوتے رہتے تھے۔ شمیم صاحب اور انورجمال نے تو اُن کے شخصی خاکے بھی تحریر کیے اور اُن کی زندگی سے جڑے دلچسپ واقعات بھی اپنے مخصوص انداز میں سناتے رہتے ۔ شمیم صاحب کے بقول چوہدری صاحب کو اُردو کے بعض مقفع اور بھاری بھر کم الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرنے کا شوق تھا۔ بھلے اُس لفظ کا محل ہو یا نہ ہو۔ ایسا ہی ایک لفظ ریشہ دوانیاں تھا جو نعیم صاحب نے کہیں سنا اور اِسے یادداشت میں محفوظ کر لیا۔ ایک مرتبہ کسی سلسلے میں دوستوں نے اُن کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اُن کی محبتوں کو خراجِ پیش کیا۔ تقریب کے اختتام پر چوہدری صاحب جب شکریے کے کلمات ادا کرنے کے لیے اسٹیج پر آئے تو گویا ہوئے۔
’’حضراتِ محفل آپ نے جو عزت مجھ خاکسار کو دی میں اس قابل کہاں تھا۔ یہ سب آپ کی ریشہ دوانیوں کا نتیجہ ہے۔‘‘
چوہدری صاحب دوستوں کی تعریف میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اپنے اوصاف کے معاملے میں بھی اُنھوں نے کبھی بخل سے کام نہ لیا اور بقول انور جمال چوہدری صاحب اُن خوش نصیب لوگوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں جنھیں اپنی تعریف کے لیے کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہونا پڑتا۔
چوہدری صاحب کے یہ سب پیارے یکم اگست کو جلال مسجد سے ملحقہ میدان میں اُن کے جنازے کے لیے اکٹھے ہوئے تو جیسے گومگو کی کیفیت میں تھے کہ سامنے رکھی میت کیا واقعی نعیم چوہدری کی ہے! انسان بلاشبہ فانی ہے، لیکن کیا نعیم چوہدری بھی۔۔۔!
میں شمیم صاحب کو پُرسا دینے کے لیے آگے بڑھا تو وہ مجھے ایک منٹ تک گلے لگائے کھڑے رہے۔ پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولے میں مسقط تھا اور ابھی رات ہی پاکستان پہنچا اور آتے ہی چوہدری کی خبر مل گئی۔ کیسا درویش تھا میں جب مسقط جانے کے لیے لاہور ائیرپورٹ پر تھا تو اُسے فون کیا اور بتایا میں مسقط جارہاہوں۔ چوہدری نے فوراً پوچھا واپس کب آنا ہے؟ میں نے جواب دیا 20اگست کے بعد آؤں گا۔ اس پر چوہدری نے فوراً جواب دیا ’’یار تد تکر تے میں مر جاواں گا۔‘‘ اُدھر انور جمال بتا رہے تھے کہ وہ بیمار تھا مگر اپنی بیماری سے سمجھوتہ کرنے اور خود کو بیمار ماننے پر آمادہ نہ تھا۔ نجانے کہاں سے فٹ نس سرٹیفکیٹ بنوا آیا اور ہم جب احتیاط کا تقاضہ کرتے ہمیں فوراً وہ سرٹیفکیٹ دکھا کر کہتا ’’اے لو پڑھو میں تے مکمل فٹ آں۔‘‘ جنازے کے لیے صف بندی ہوئی تو آخری صف میں ڈاکٹر اے بی اشرف بھی جیسے نڈھال کھڑے نظر آئے۔ ایک لمحے کو مجھے یوں لگا جیسے آج بھی سب احباب چوہدری صاحب سے ایک لائیو کال پر گفتگو کر رہے تھے کہ اُنہوں نے یک لخت سلام علیکم کہااور ریسیور ہمیشہ کے لیے رکھ دیا۔
فیس بک کمینٹ