70 کی دہائی میں اداکارہ پروین بابی سنیما کے پردے پر وہ سب کچھ کر رہی تھیں جس کا تصور اُس دور میں کرنا مشکل تھا۔ یقین نہیں آتا تو فلم ’دیوار‘ کا وہ منظر یاد کریں جس میں امیتابھ بچن بیئر بار میں بیٹھے ہیں اور انھیں تنہا دیکھ کر پروین اُن سے جان پہچان کے بغیر ہی گفتگو کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں شراب کا گلاس لیے پروین بابی چھوٹا سا سکرٹ پہنے انتہائی پُراعتماد انداز میں نظر آتی ہیں۔ یہ صرف ایک ہی منظر تھا جبکہ پروین بابی کا پورا کیریئر ایسے مناظر سے بھرا ہوا ہے جس میں وہ اپنے دور کو بدلتی دکھائی دیتی ہے۔
وہ ایک ایسی لڑکی کا کردار نبھا رہی تھیں جو نوکری پیشہ ہے، خود انحصاری کی جانب گامزن ہے اور شادی سے پہلے اپنے مرد دوست کے ساتھ جسمانی تعلقات سے پرہیز نہیں کرتی ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے ان کے کردار میں رکھ رکھاؤ کے ساتھ ساتھ وقار بھی ہے جسے نہ تو بدنامی کی فکر ہے اور نہ زمانے کی۔
چھوٹے کرداروں میں بھی جادو
دیوار کے چھوٹے سے کردار میں پروین بابی نے جان ڈال دی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پروین بابی کے فلمی کیریئر کے تین دہائیوں کے طویل وقفے کے بعد بھی لوگ ان کے کردار کو یاد کرتے ہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہیرو کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی فلموں میں پروین بابی کے کردار بہت چھوٹے تھے لیکن یہ ان کے چہرے اور انداز کا جادو تھا کہ چھوٹے کردار بھی انھیں بحث میں رکھنے کے لیے کافی تھے۔
جب سنیما سکرین پر ’اچھی‘ لڑکیوں کے شلوار سوٹ اور ساڑھی پہننے کا رجحان تھا اس وقت مغربی انداز میں پروان چڑھنے والی پروین بابی کو ہدایتکار بی آر اشارہ نے سنہ 1973 میں کرکٹر سلیم درانی کے ساتھ فلم ’چرِتر‘ میں پہلا موقع دیا تھا۔ فلم فلاپ ہو گئی لیکن پروین بابی کا جادو چل نِکلا۔
پروین بابی چار اپریل 1949 کو جونا گڑھ کے ایک متوسط طبقے کے مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں اور احمد آباد کے سینٹ زیویرس کالج سے انگریزی ادب میں بی اے کیا اور ماڈلنگ میں کیریئر کی تلاش میں تھیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بی آر اشارہ ایک نئی اداکارہ کی تلاش میں تھے اور ایک دن ان کی نگاہ پروین بابی پر پڑی جو اس وقت سگریٹ کے کش لگا رہی تھیں۔ انھیں دیکھ کر اشارہ کو لگا کہ انھیں اُن کی ہیروئن مل گئی۔
ٹائم میگزین کے کور پیج پر
پروین بابی کو سنہ 1974 میں امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’مجبور‘ میں پہلی کامیابی ملی۔ اس کے بعد پروین بابی نے امیتابھ بچن کے ساتھ جنھیں ’اینگری ینگ مین‘ کہا جاتا تھا بہت سی کامیاب فلمیں دیں جن میں ’دیور‘، ’امر اکبر انتھونی‘، ’شان‘ اور ’کالیا‘ جیسی فلمیں شامل تھیں۔ سنہ 1976 میں پروین بابی اس قدر کامیاب تھیں کہ انھیں اس سال مشہور رسالے ’ٹائم‘ نے اپنے شمارے کے سرورق پر پیش کیا۔ پروین بابی بالی وڈ کی پہلی آرٹسٹ تھیں جنھیں ٹائم کے سرورق پر جگہ ملی تھی۔ وہ سنیما کے پردے پر جتنی کامیاب تھیں اصل زندگی میں انھیں مایوسی زیادہ ہاتھ آئی۔ سب سے پہلے اداکار ڈینی کے ساتھ ان کا افیئر رہا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
ڈینی نے فلم فیئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پروین بابی اور ان کا ساتھ تین، چار سال رہا جس کے بعد دونوں کی راہیں الگ ہو گئیں۔ ڈینی کے بعد پروین بابی اور کبیر بیدی کے عشق کی کہانی شروع ہوئی۔ ان دونوں نے سنہ 1976 میں فلم ’بلٹ‘ میں ایک ساتھ کام کیا تھا اور دونوں تقریبا تین سال تک ساتھ رہے۔
اس دوران کبیر بیدی کو ایک اطالوی ٹی وی سیریل میں مرکزی کردار ملا اور پروین بابی بھی ان کے ساتھ یورپ چلی گئیں۔ کبیر بیدی کی محبت میں پروین نے اپنے شاندار کریئر کو بھی چھوڑ دیا تھا۔ جب دونوں کے تعلقات خراب ہوئے تو پروین بابی بالی وڈ میں واپس آ گئیں۔ ان کی واپسی پر انڈسٹری نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پریتیش نندی کے کہنے پر پروین بابی نے ’دی ایلیسٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا‘ میں ایک یادداشت لکھی تھی جس میں انھوں نے لکھا ’میرا کیریئر اس سے بہتر کبھی نہیں رہا۔ میں نمبر ون ریس میں ہوں۔ ممبئی میں ایسی کوئی فلم نہیں جس میں پروین بابی نہ ہو۔ لوگ میری اس کامیاب واپسی پر حیرت زدہ ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ سب قسمت ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ اس میں قسمت کا کوئی دخل نہیں ہے یہ خون پسینہ، آنسو اور ایک ٹوٹا ہوا دل ہے۔ تاہم اس دوران مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ شوبز میں رہنا بھی ایک جدوجہد ہے، اس کے اپنے پریشر اور چیلنجز ہیں۔ میں اس میں اتنی دھنس چکی ہوں کہ اب مجھے اسے جھیلنا ہی پڑے گا۔‘
مہیش بھٹ کے ساتھ رومانس
کبیر بیدی کے ساتھ بریک اپ کو اپنی زندگی کا اہم موڑ قرار دینے والی پروین بابی اس کے بعد مہیش بھٹ کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔ دونوں کا رومانس سنہ 1977 کے آخر میں شروع ہوا جب مہیش بھٹ بھی کبیر بیدی کی طرح شادی شدہ تھے۔ لیکن وہ اپنی بیوی اور بیٹی پوجا بھٹ کو چھوڑ کر پروین بابی کے ساتھ رہنے لگے۔ یہ وہ دور تھا جب پروین چوٹی کی اداکارہ تھیں اور مہیش بھٹ فلاپ فلمساز تھے۔ پروین بابی کے ساتھ اپنے تعلقات پر مہیش بھٹ نے فلم ’ارتھ‘ بنائی تھی۔
اس فلم سے جہاں مہیش بھٹ کا کیریئر پروان چڑھا وہیں پروین بابی اس مقام پر پہنچ گئیں جہاں سے ان کا ذہنی توازن بگڑنے لگا تھا۔ مہیش بھٹ کے ساتھ رومانس کے دوران ہی پروین بابی کو ذہنی بیماری شروع ہو گئی تھی جسے مہیش بھٹ نے اپنے بہت سے انٹرویوز میں ’پیرانائڈ شیزوفرینیا‘ بتایا ہے۔ تاہم پروین بابی نے خود کبھی بھی تسلیم نہیں کیا کہ انھیں اس طرح کی بیماری ہے۔
روحانیت کی پناہ میں
اسی دوران پروین بابی روحانی گرو یو جی کرشنامورتھی کے ساتھ رابطہ میں آئیں اور ان کے کہنے پر ہی انھوں نے سنہ 1983 میں بالی وڈ چھوڑ دیا۔ وہ مختصر وقت کے لیے بنگلور میں مقیم رہیں جس کے بعد وہ امریکہ چلی گئیں۔ یہ وہی وقت تھا جب پروین بابی اپنے کیریئر کو سنجیدگی سے لے رہی تھیں اور امیتابھ بچن کے سائے سے باہر بھی کچھ مختلف کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
اس کی ایک جھلک ان کی فلم ’ارپن‘ میں جیتیندر کے ساتھ بھی دیکھی گئی تھی جس میں پروین کو مغربی رنگ سے دور ساڑھی میں پیش کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں انھوں نے رشی کیش مکھرجی کی فلم ’رنگ برنگی‘ اور اسماعیل شروف کی فلم ’دل آخر دل ہے‘ جیسی فلموں میں بھی کام کرنا شروع کیا۔ لیکن ان سب پر اچانک بریک لگ گیا۔ امریکہ میں بھی ان کی ذہنی بیماری کا کوئی علاج نہیں ملا۔
امیتابھ سے ’خوف‘
اپنی بیماری کے دوران انھوں نے امیتابھ بچن سمیت دنیا کے نامور افراد سے اپنی جان کو خطرہ بتایا تھا۔ سنہ 1989 میں پروین بابی انڈیا واپس آ گئیں اور بالی وڈ کی چمک دمک سے دور سنہ 2005 تک ممبئی میں رہیں۔ امیتابھ بچن پر ان کا مبینہ شک کیا تھا اس کا اندازہ ڈینی کے ساتھ ان کی گفتگو کے سے لگایا جا سکتا ہے۔
ڈینی نے فلم فیئر کو ایک انٹرویو میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا ’ایک انٹرویو میں امت جی نے کہا تھا کہ میں ان کا اچھا دوست ہوں۔ پروین نے وہ انٹرویو پڑھا تھا اس کے بعد جب میں ایک دن ان کے گھر پہنچا تو انھوں نے گھر کا دروازہ تک نہیں کھولا۔‘ امیتابھ بچن کے بارے میں ان کے شبہات آخری وقت تک برقرار رہے اپنی موت سے ایک سال قبل شیکھر سمن کو دیے گئے ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ مارلن برینڈو، ایلوس پرسلی، لارنس اولیور اور مائیکل جیکسن کے ہوتے ہوئے امیتابھ بچن کو اس صدی کا سٹار منتخب کیا جا رہا ہے اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
اپنی شرائط پر جینے والی پروین بابی
اسی انٹرویو میں انھوں نے امیتابھ کو انڈیا کا دسواں سب سے خوبصورت شخص منتخب کرنے پر یہ کہتے ہوئے طنز کیا کہ دیوانند، فیروز خان، شمی کپور، ششی کپور حتیٰ کہ راج کپور یا رشی کپور ان سے زیادہ خوبصورت تھے۔ تاہم امیتابھ نے پروین بابی کے بارے میں کبھی بھی کھلے عام کچھ غلط نہیں کہا۔
سال 2005 میں پروین بابی کی موت کے بعد انھوں نے میڈیا سے کہا تھا کہ پروین اپنی شرائط پر جینے والی ایک زندہ دل فنکارہ تھیں جنھوں نے ہندی سنیما پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ بہر حال پروین بابی اپنی زندگی کے آخری ایام تک خود انحصار رہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ کسی زمانے میں جس پروین بابی کے گھر کے باہر پروڈیوسروں کی قطار لگی رہتی تھی اس پروین بابی کے آخری دنوں میں سب نے انھیں فراموش کر دیا تھا۔ اسٹارڈم اور 50 کے قریب فلمیں ان کی زندگی کے خالی پن کو پورا نہیں کر سکیں۔ دراصل پروین بابی کی کہانی ایک چھوٹے شہر سے بالی وڈ پر چھا جانے والی اس لڑکی کی کہانی ہے جسے مکمل جہاں نہیں ملا۔ کچھ بالی وڈ میں قائم رہنے کا دباؤ، کچھ محبت میں دھوکہ اور کچھ ذہنی بیماری۔ ان سب نے مل کر پروین بابی کے کرشمے کو کم ضرور کیا لیکن ان کی شخصیت اور اداکاری کا اثر بالی وڈ میں ہمیشہ برقرار رہے گا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )