میاں نواز شریف اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اچھے قصیدہ نگار میسر ہیں ،جو اذان ہو نہ ہو” تکبیرِمسلسل “ پڑھتے رہتے ہیں۔ قلم پر قدرت رکھنے والے بعض لوگ بہت سفاک ہوتے ہیں ،لفظوں سے اس طرح کھیلتے ہیں کہ انہیں حرف کی حرمت کا احساس تک دامن گیر نہیں ہوتا،کسی بھی تحریر میں کسی خیال کا بُننا اتنا مشکل نہیں ہوتا،جتنا حرف کی تقدیس اور تحریر کئے گئے موضوع کے ساتھ انصاف اور فکری دیانتداری کا احساس۔
ہمارے بعض لکھنے والوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری سے سراسر گریز کرتے ہیں ،اپنی پسند و ناپسند پر ہی بات ختم کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ،سیاست میں قیدوبند کی صعوبتیں نئی بات نہیں ہے ،ہاں مگر اس دوران صحت کے مسائل کا سر اٹھانا قدرتی عمل ہے ،اس معاملے میں ان کے ساتھ حکومت کے برتاﺅاور ناروائی کو زیر بحث لانا ان کے بہی خواہوں اور ہمنواﺅں کا حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری بھی کہ ان کی صحت کی سلامتی کو ممکن بنائے کہ آخر کو وہ اس ملک کے منتخب وزیر اعظم رہے ہیں ،ملک کی ترقی و خوشحالی کے راستے کے بہت سارے کانٹے انہوں نے یقینا چنے ہیں ،جہاں بہت ساری بے اعتدالیاں ان سے منسوب ہیں ،وہاں بہت ساری خوبیاں بھی ان کے نامہ اعمال میں درج ہیں ،جنہیں نظرانداز کرنا حقیقت سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔
حکمران کبھی غلطیوں سے مبراءنہیں ہوا کرتے ،اور کم ہی ایسے ہیں جو دنیوی مکافات عمل سے نہ گزرے ہوں ،اخروی معاملات وہ جانیں یا اوپر والا،اس امر پر مباحثہ تضیع اوقات کے سوا کچھ نہیں ،مگر ممدوح کوئی وزیر اعظم ہو یا کسی بھی درجے کا حکمران اس کے بارے ماورائے حقیقت بات کرتے ہوئے یا مضمون باندھتے ہوئے احتیاط کرنا چاہئے۔ حکمرانوں کو ان کے ذاتی اوصاف سے ہٹ کر نظریاتی حوالے سے ان کے احوال کامطالعہ پیش کرنا چاہئے،اس بارے احتیاط سے مسلسل روگردانی کی جارہی ہے۔
کل میاں نواز شریف اپنے دورِ اقتدار میں جن لغزشوں سے لاپروارہے آج وزیر اعظم عمران خان بھی اسی ڈگر پررواں ہیں ،انہوں نے سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا،اس لئے جو لوگ ان کی غلطیوں پر گہری نظررکھے ہوئے ہیں وہ بیمار نواز شریف کو فرشتہ بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے،اس طرح کسی کو تاریخ میں زندہ نہیں رکھا جا سکتا،وہ کوئی بھی ہو ،تاریخ میں ہمدردیوں کی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔اس نوع کی خوش قسمتیاں جتنی بھی قیمت پر خرید لی جائیں سطحی ہوتی ہیں اور کسی بھی سطحی عمل کی تاریخی حیثیت کوئی نہیں ہوا کرتی،جو لکھاری اس زعم میں لکھ رہے ہیں ،ذاتی منفعت کے سوا کوئی مقصد ان کے دل و دماغ میں نہیں ہے،اللہ کریم میاں نواز شریف کو صحت کی سلامتی کے ساتھ سزا وجزا کے اس دور سے گزارے۔
دوسری طرف حالات جس سمت جارہے ہیں سنجیدہ طبقہ کسی طور اس سارے عمل کو پزیرائی کی نظر سے نہیں دیکھ رہا ،سرحدوں پر دشمن محاذ گرم کئے کھڑا ہے اور اندرون ملک ہزیمت یافتہ سیاستدان فضا مکدر کئے ہوئے ہیں ،حب الوطنی کے سب تقاضے پاﺅں تلے روندے جارہے ہیں ،سبھی اعتدال کا دامن چھوڑے ہوئے ہیں ،حکومتی حلقے انتہائی بے حسی پر تُلے ہوئے ہیں ،سوشل میڈیا پر دونوں جانب سے شرمناک الفاظ میں لے دے ہورہی ہے ،میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حالت اگر قابل رحم ہے ،تو وزیر اعظم عمران خان کی حالت بھی ان سے بڑھ کر قابل رحم ہے ،کہ انہوں نے انسانی ہمدردی کے طور پر اپنے سے سینئر سیاستدانوں کی سرسری عیادت کر نا بھی گوارہ نہیں کی ،بلکہ ان کے لہجے میں نفرت کی زہرناکی اور بھی فروتر ہوگئی ہے ۔
ریاست مدینہ والوں کا سب سے بڑا اثاثہ اخلاقِ حسنہ تھے ، نئی ریاست مدینہ کے دعویدار و والیان ایسے اخلاق باختہ کہ اللہ کی پناہ۔۔!اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کے راستے مسدود کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کی سابقہ روایات کو مات دینے کے درپے،اور جبہ و درستار والے جیسے کفر کے خلاف میدان گرم کرنے کو تیار ،خاکی وردیوں والے ڈنڈا بردار جہادی ،آستینوں میں اسلحہ چھپائے اپنے ہی ملک کی سر زمین کو لہو رنگ کرنے کی دھن میں غرق،اپنی ہی دھرتی کو آگ کا دریا بنانے کے آرزو مند۔جن کے اجداد نے اس مٹی کا رزق کھانے کے باوجود یہ کہتے ہوئے ندامت محسوس نہ کی کہ ”ہم اس کے بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے “ کتنے سفاک تھے وہ ،اور اب یہ ،جو ذاتی جا ہ و جلال کے چھن جانے کے غم میں قومی سلامتی کے لئے خطرے کے ایسے بادلوں کا روپ دھارے ہوئے ہیں ،جو برس پڑے تو ان کے بڑوں کے خواب کی تعبیر مل جائے گی،اور اگر برس نہ سکے
تو ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت کو ایک زور دار دھچکا تو ضرور لگے گا،جو موجودہ حکمران سہہ بھی پائیں گے یا نہیں ،جن سے عنان اقتدار نہیں سنبھالی جا رہی۔
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ