ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیرِاعلیٰ کون ہوگا ؟ تادمِ تحریر اس بارے ابھی کسی کے کانوں تک بھنک نہیں جانے دی جارہی،تاہم یہ ایک تاریخی اورمعروضی حقیقت ہے کہ پنجاب بارے صحیح فیصلہ نہ کرنے والی سیاسی جماعت تا دیراپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو سکتی،پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرک انتہائی قابل اور تجربہ کارسیاستدان ذوالفقار علی بھٹو بھی اس بارے کوئی صائب فیصلہ کرنے میں ناکام رہے،یہی وجہ تھی کہ پنجاب میں پی پی پی کے قدم جمے نہ رہ سکے،بعدازاںمحترمہ بے نظیر بھٹو بھی اس حوالے سے منجدھار میں پھنس کر ایک ناتجربہ کار سیاستدان نواز شریف کے ہاتھوں مسلسل اذیت کا شکار رہیں ،جو اس قدر خودپسند تھا کہ ملک کی منتخب وزیر اعظم کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ تک آنا گوارہ نہیںکرتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا اور فوج کا چہیتا وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف ملک کی وزیر اعظم کو ناکوں دانے چبواتا رہا ،آخرِکار پنجاب حکومت ہی کی ریشہ دوانیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے اقتدار کے دوسرے ہی سال بے نظیر حکومت چاروں شانے چِت ہوگئی۔ Eduardo Galeano (یوروگوائے کے صحافی)نے کہا تھا ’’ ہر صبح تاریخ ایک نیا جنم لیتی ہے‘‘ہاں مگر ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ کے کسی جنم پر کبھی توجہ ہی نہیں دی ،فقط پاکستان کے بیشتر پڑھے لکھے طبقے ہی کی نہیں دنیا بھر کے دانشور طبقے کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت بننے جارہی ہے جو عمران کی قیادت میں تاریخ کا نیا رُخ متعین کرے گی ،لیکن یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے کہ عمران ڈاکٹرائن اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک باسٹھ فیصد آبادی پر مشتمل ملک کے بڑے صوبے کو ایسا پڑھا لکھا منجھی ہوئی فکر رکھنے والا وزیر اعلیٰ نہیں دیا جائے گا جو شائستگی کی ایسی پُر تاثیر روایت قائم کر سکے جس میں ایوان میں پائے جان والے سعد رفیق جیسے ممبر کو بھی تہذیب کے دائرے میں رکھا جا سکے ،عمران خان کا یہ کہنا کہ ’’پنجاب میں ہمیں پانی پت کی جنگ کا سامنا ہے ‘‘ اس امر کی طرف واضح اشارہ ہے کہ غیر سنجیدہ لوگ پنجاب اسمبلی کو مچھلی گھر بنانے کی کوشش کرینگے ۔ دیر آید درست آید کے اصول پر سیاست کے اس اکھاڑے میں کسی جنگجو کو نہیں پُر وقارو پُر اعتماد شخص کو اتارنا ہوگا جو اپنے دورِ حکومت کی ہر صبح کو تاریخ کا نیا اور ایسا جنم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو کہ جو روشن باب کی حیثیت رکھتا ہو، ناں کہ کوئی ایسا باب رقم ہو جو گزشتہ تاریخ کو بھی شرمندہ کر کے رکھ دے۔ صوبہ پنجا ب میں پولیس نظام حد سے زیادہ اصلاحات طلب ہے ،جسے ایمر جینسی بنیادوں پر دیکھنا اور درست کرنا ہوگا ، یہ انتہائی مشکل ترین مرحلہ ہوگا ،کے پی کے کا تجربہ یہاں اتنی آسانی سے نہیں آزمانے دیا جائے گا کہ اوپر سے نیچے تک آواکاآوابگڑا ہوا ہے ،جس پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے کم نہ ہوگا ،اسی طرح پٹوار کا نظام جو خادم اعلیٰ جیسے منتظم سے دس سالہ مسلسل حکومت کے دوران سنبھالا اور درست نہ کیا جا سکا ،پنجاب میں صاف پانی کا مسئلہ صحت کی سہولیات کی کمی اور خاص طور پر تعلیمی نظام کا نادرست ہونا ،گزشتہ حکومت کی بے بسی اور بیڈ گورنس کی زندہ مثالیں ہیں، یہی وجوہات ہیں جو پنجاب میں مسلم لیگ ن کے اقتدار کے سفینے کے ڈوبنے کا سبب بنیں ،حکومتیں خوبصورت الفاظ پرمشتمل نعروں اور روز دہاڑے اخبارات میں چَھپنے والے اشتہاروں سے نہیں چلا کرتیں ،یہ آگہی اور شعور کا دور ہے ،کسی کو سانپ کا کہہ کر رسّی سے نہیں ڈرایا جا سکتا ۔ پنجاب کے ہر ہر شہر کی انتظامیہ سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا ،بلدیاتی ادارے سفید ہاتھیوں کی مثل ہیں ان کی آمدنیوں اوراخراجات پر کڑی نظر رکھنا ہوگی ،ترقیاتی فنڈز کا اب تک کا پورا حساب کتاب لیکر مزید فنڈز کا اجراء اس صورت کرنا ہوگا کہ کسی یوسی کی حق تلفی نہ ہونے پائے ،کسی علاقے میں امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔
علاقائی سطح پر بنائے گئے محتسب آفسز میں ریٹائرڈ افسران لاکھوں میں تنخواہیں اورمراعات الگ لے رہے ہیں ،یہ قومی خزانے پر خومخواہ کا بوجھ ہیں ،ان اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار مہیا کیا جائے ،اسی طرح بعض ٹیکنیکل کالجز اور یونیورسٹیز میں سروس پوری کر لینے والے اساتذہ کو ایکسٹینشن دینے کی بجائے فریش گریجوئیٹس کو ریفریشر کورسز کرواکے تعینات کیا جائے ،ہاں البتہ تجربہ کار اساتذہ اور آفیسرز کے گاہے بگاہے بامعاوضہ لیکچرز ضرور رکھے جائیں،اس طرح ان کی مالی سپورٹ ہوجائے گی اور نئے آفیسرز کی تربیت بھی۔ بات پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے شروع ہوئی اور بہت دور نکل گئی ،شاید اس کالم کے شائع ہونے تک وزیر اعلیٰ پنجاب کا نام بھی منصہء شہود پر آجائے پھر بھی بقول ڈاکٹر ادریس صدیقی ہمارا کام ہے بس رُت بدلنے کی خبر دینا سجا کر اس کی چاکھٹ گلِ تازہ چلے آنا