لاہور میں انگریزی کے پروفیسر تھے،ایک مرتبہ مجھے ان کا ملتان میں اپنے ہاں آنا بھی یاد ہے،دوپہر کے کھانے پر۔ وہ پاپا سے نظریاتی طور پر اتنے قریب تھے کہ ہم جب بھی لاہور جاتے تو سبھی ان کے ہاں ضرور جاتے،بھائی جان سے تو وہ اتنا پیار کرتے کہ انہیں ان کے گھر کے نام سے بلُاتے۔ ان کی بیوی(یہ میں نے رسماً لکھ دیا) کٹِی ان کے ساتھ تیس سال سے بغیر شادی کے رہ رہی تھیں اور بڑی خوش اسلوبی سے۔ ہم سب سے پیار سے پیش آتیں۔ ایک دفعہ ہومیوپیتھی کا ذکر چل نکلا تو کٹی نے پاپا کو بتایا “گھر میں سب کو انفلواءنزا نے لِٹایا ہؤا تھا ایک میں تھی جو بچی ہوئی تھی، میں سب کے منہ میں برایاُونیا ٹپکاتی اور ساتھ ہی اپنے منہ میں بھی ڈال لیتی چنانچہ مجھے کچھ نہیں ہؤا۔“ مجھے اس کے سوا اور کچھ نہیں یاد سواۓ اس کے کہ کٹی گوری خوبصورت خاتون تھیں انگریزوں کی طرح جبکہ ایرک سپرین کالے پستہ قد اور کم رُو تھے۔
ان کے (انہی کے ہونگے،کیونکہ وہ بھی کالے تھے)بیٹے کرنل ٹرسلر اور ان کی بیگم بھی پُر خلوص لوگ تھے،جب یہ لوگ ملتان چھاؤنی فورٹ کالونی میں رہے تو خوب آنا جانا رہا۔ 1974تک یہ تعلق برقرار تھا۔پھر ایک ناقابل یقین اور عجیب و غریب خبر سُننے میں آئی کہ ایرک سپرین اور کٹی میں کوئی چالیس سال بعد علیحدگی ہو گئی ، وجہ اس خبر سے زیادہ ہولناک تھی۔ کٹی نے روٹی میں زہر ملا کر ایرک سپرین کو دینا چاہا لیکن کٹی کے پیچھے کھڑی ملازمہ نے اشارے سے ایرک سپرین کو وہ روٹی کھانے سے روک دیا۔ اب ہمارا ملنا جُلنا بند ہو چُکا تھا ،صرف اتنا سُننے میں آیا کہ ایرک سپرین مسلمان ہو گۓ اور کسی مسلم عورت سے شادی بھی کر لی۔ وہ ضیاء الحق کا بد ترین دور تھا،شاید 1987تھا، ہم اسلام آباد میں جِناح سُپر مارکیٹ میں جونہی گاڑی سے اتُرے بھائی جان نے پاپا سے کہا وہ دیکھۓ ایرک سپرین، ان کی بیوی برقعے میں تھیں،پاپا نے آگے بڑھ کر ملنا چاہا، ہم سب تو دُور ہی رہے ،پاپا سے بھی رسماً ہیلو ہاۓ ہوئی۔ کسی بات چیت کی گنجائش ہی نہ تھی۔بے رخی اور بے نیازی اور سناٹے کا عالم تھا۔۔
مجھے بہ یک وقت سودا، میر اور اقبال یاد آگئے۔
کیا جانیے تو نے اُسے کس آن میں دیکھا؟
میرے تغیِر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے۔۔
لیکن یہاں بر محل شعر اقبال کا ہے:
درُونِ خانہ ہیں ہنگامے کیا کیا
چراِغ رہ گُزر کو کیا خبر ہے !
فیس بک کمینٹ